جی چاہتا ہے شیخ کے پگڑی اتارئیے
Appearance
جی چاہتا ہے شیخ کہ پگڑی اتارئیے
اور تان کر چٹاخ سے ایک دھول ماریے
سوتوں کو پچھلے پہر بھلا کیوں پکاریے
دروازہ کھلنے کا نہیں گھر کو سدھاریے
کیا سرو اکڑ رہا ہے کھڑا جوئبار پر
ٹک آپ بھی تو اس گھڑی سینہ ابھارئے
یہ کارخانہ دیکھیے ٹک آپ دھیان سے
بس سون کھینچ جائے یہاں دم نہ ماریے
ناصح نے میرے حق میں کہا اہل بزم سے
بگڑی ہوئی کو آہ کہاں تک سنوارئیے
انشاؔ خدا کے فضل پہ رکھیے نگاہ اور
دن ہنس کے کاٹ ڈالئے ہمت نہ ہاریے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |