چھیڑنے کا تو مزہ جب ہے کہو اور سنو
Appearance
چھیڑنے کا تو مزہ جب ہے کہو اور سنو
بات میں تم تو خفا ہو گئے لو اور سنو
تم کہو گے جسے کچھ کیوں نہ کہے گا تم کو
چھوڑ دے گا وہ بھلا دیکھیے تو اور سنو
یہ بھی انصاف ہے کچھ سوچو تو اپنے دل میں
تم تو سو کہہ لو مری کچھ نہ سنو اور سنو
اب تو کچھ اتنے خفا ہو کہ کہو ہو مجھ سے
ہے قسم تم کو مرا نام نہ لو اور سنو
عرض احوال مرا سن کے جھڑک کر بولے
جاؤ، رے واؤ زبر رو ہو، چلو اور سنو
چل کے دو ایک قدم دیکھتے پھر ہو یوں کو
گالیاں سن تو چکے چاہتے ہو اور سنو
آپ ہی آپ مجھے چھیڑو رکو پھر آپھی
آپ ہی بات میں پھر روٹھ رہو اور سنو
آفریں ایں نہ یہی چاہیئے شاباش تمہیں
دیکھ روتا مجھے یوں ہنسنے لگو اور سنو
بات میری جو نہیں سنتے اکیلے مل کے
ایسے ہے ڈھب سے سناؤں کہ سنو اور سنو
شکوہ مند آپ سے انشاؔ ہو سو اس کا کیا دخل
تم نہ مانو تو کہیں چپکے چھپو اور سنو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |