بندگی ہم نے تو جی سے اپنی ٹھانی آپ کی
بندگی ہم نے تو جی سے اپنی ٹھانی آپ کی
بندہ پرور خیر آگے قدر دانی آپ کی
تھی جو وہ لاہی کی ٹوپی زعفرانی آپ کی
سو ہمارے پاس ہے اب تک نشانی آپ کی
دم بدم کہہ بیٹھنا بس جاؤ اپنی ان کے پاس
کیوں نہیں جاتی وہ اب تک بد گمانی آپ کی
کیا کہوں مارے خوشی کے حال میرا کیا ہوا
آمد آمد جو ہوئی کل ناگہانی آپ کی
ہے کسی سے آج وعدہ کچھ اجی خالی نہیں
یہ دھڑے مسی کی ہونٹوں پر جمانی آپ کی
ہم نے سو راتیں جگائیں تب ہوا یہ اتفاق
سو اسی دن کو دھری تھی نیند آنی آپ کی
میرے حق میں اب جو یہ ارشاد فرمایا کہ ہے
خوب یاں منقوش خاطر جانفشانی آپ کی
لیک میں اوڑھوں بچھاؤں یا لپیٹوں کیا کروں
روکھی پھیکی ایسی سوکھی مہربانی آپ کی
کیوں نہ عشق اللہ بولوں حضرت دل آپ کو
پیشواؤں نے بھی اپنی آن مانی آپ کی
دید کر ڈالا بس ان سے عالم لاہوت ثبت
جس نے لگدی بنک کی صافی میں چھانی آپ کی
اپنی آنکھوں میں پڑی پھرتی ہے اب تک روز و شب
عرش پر داتا وہی صورت دکھانی آپ کی
اے جنوں استاد بس خم ٹھونک کر آ جائیے
ہاں خلیفہ ہم بھی دیکھیں پہلوانی آپ کی
صدقہ صدقہ کیوں نہ ہو جاؤں بھلا غش کھا کے میں
دیکھ گدرائی ہوئی اٹھتی جوانی آپ کی
سبزہ آغازی سو یہ کچھ تسپہ آفت سادگی
قہر پھر اس بات پر گردن ہلانی آپ کی
اپنی آنکھوں میں تراوٹ آ گئی یک بارگی
دیکھ کر یہ لہلہے پوشاک دھانی آپ کی
کیوں نہ لڑکی سب کہیں حوا تمہیں اے شیخ جیو
ہے جھموخی کی سی صورت یہ ڈرانی آپ کی
گول پگڑی نیلی لنگی مونچھ منڈی تکیہ ریش
پھر وہ رومال اور وہ آخ تھو ناسدانی آپ کی
دو گلابی لا کے ساقی نے کہا انشاؔ کو رات
زعفرانی میرا حصہ ارغوانی آپ کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |