Jump to content

توڑوں گا خم بادۂ انگور کی گردن

From Wikisource
توڑوں گا خم بادۂ انگور کی گردن
by انشاء اللہ خان انشا
294579توڑوں گا خم بادۂ انگور کی گردنانشاء اللہ خان انشا

توڑوں گا خم بادۂ انگور کی گردن
رکھ دوں گا وہاں کاٹ کے اک حور کی گردن

خوددار کی بن شکل الف ہائے انا الحق
نت چاہتی ہیں اک نئی منصور کی گردن

کیوں ساقیٔ خورشید جبیں کیا ہے نشہ ہوں
سب یوں ہی چڑھا جاؤں مے نور کی گردن

اچھلی ہوئی ورزش سے تری ڈنڈ پہ مچھلی
ہے نام خدا جیسی سقنقور کی گردن

تھا شخص جو گردن زدنی اس سے یہ بولے
اب دیجئے ہے دینی جو منظور کی گردن

آئینہ کی گر سیر کرے شیخ یہ دیکھے
سر خرس کا منہ خوک کا لنگور کی گردن

یوں پنجۂ مژگاں میں پڑا ہے یہ مرا دل
جوں چنگل شہباز میں عصفور کی گردن

تب عالم مستی کا مزا ہے کہ پڑی ہو
گردن پہ مری اس بت مخمور کی گردن

بیٹھا ہو جہاں پاس سلیمان کے آصف
واں کیوں نہ جھکی قیصر و فغفور کی گردن

بھینچی ہے بغل اپنی میں اس زور سے جو عشق
تو توڑنے پر ہے کسی مجبور کی گردن

اے مست یہ کیا قہر ہے خشت سر خم سے
کیوں تو نے صراحی کی بھلا چور کی گردن

محفل میں تری شمع بنی موم کی مریم
پگھلی پڑی ہے اس کی وہ کافور کی گردن

اے دیو سفید سحری کاش تو توڑے
اک مکے سے خور کے شب دیجور کی گردن

جب کشتۂ الفت کو اٹھایا تو الم سے
بس ہل گئی اس قاتل مغرور کی گردن

بے ساختہ بولا کہ ارے ہاتھ تو ٹک دو
ڈھلکے نہ مرے عاشق مغفور کی گردن

حاسد تو ہے کیا چیز کرے قصد جو انشاؔ
تو توڑ دے جھٹ بلغم باعور کی گردن


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.