صاحب کے ہرزہ پن سے ہر ایک کو گلہ ہے
Appearance
صاحب کے ہرزہ پن سے ہر ایک کو گلہ ہے
میں جو نباہتا ہوں میرا ہے حوصلہ ہے
چودہ یہ خانوادے ہیں چار پیر تن میں
چشتیہ سب سے اچھے یہ زور سلسلہ ہے
پھر کچھ گئے ہوؤں کی مطلق خبر نہ پائے
کیا جانیے کدھر کو جاتا یہ قافلہ ہے
بار گراں اٹھانا کس واسطے عزیزو
ہستی سے کچھ عدم تک تھوڑا ہی فاصلہ ہے
دے گالیاں ہزاروں سن مطلع اس غزل کا
کہنے لگے کہ انشاؔ اس کا یہ صلہ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |