گلی سے تیری جو ٹک ہو کے آدمی نکلے
Appearance
گلی سے تیری جو ٹک ہو کے آدمی نکلے
تو اس کے سایہ سے جھٹ بن کے اک پری نکلے
خیال میں ترے چہرے کی مر گیا ہو جو شخص
تو اس کی خاک سے سونے کی آرسی نکلے
بعید شان سے عاشق کے آہ بھرنی تھی
ولی وہ کیا کرے جب اس کی جان ہی نکلے
کسی کے ہوش کو کہہ دو اگر چلا چاہے
تو اپنے گھر سے کمر باندھ کر ابھی نکلے
نشان آہ لیے چھاؤں چھانو تاروں کے
چلے گی فوج سرشک آج چاندنی نکلے
کجی طبیعت کج فہم سے ہو تب منفک
کسی دوا سے دم سگ کے گر کجی نکلے
ہزار شکر کہ انشاؔ کسی کی محفل میں
خفا سے آئے تھے پر ہو ہنسی خوشی نکلے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |