Jump to content

ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا

From Wikisource
ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا
by انشاء اللہ خان انشا
294576ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہماراانشاء اللہ خان انشا

ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا
تس پر یہ غضب پوچھتے ہو نام ہمارا

تم نے تو نہیں خیر یہ فرمائیے بارے
پھر کن نے لیا راحت و آرام ہمارا

میں نے جو کہا آئیے مجھ پاس تو بولے
کیوں کس لیے کس واسطے کیا کام ہمارا

رکھتے ہیں کہیں پانو تو پڑتے ہیں کہیں اور
ساقی تو ذرا ہاتھ تو لے تھام ہمارا

ٹک دیکھ ادھر غور کر انصاف یہ ہے واہ
ہو جرم و گنہ غیر سے اور نام ہمارا

اے باد صبا محفل احباب میں کہیو
دیکھا ہے جو کچھ حال تہہ دام ہمارا

گر وقت سحر جائیے ہوتا ہے یہ ارشاد
ہے وقت ملاقات سر شام ہمارا

پھر شام کو آئے تو کہا صبح کو یوں ہی
رہتا ہے سدا آپ پر الزام ہمارا

سرگشتگی مرحلۂ شوق میں اے عشق
پڑتا ہے نئی وضع سے ہر گام ہمارا

اے برہمن دیر محبت میں صنم کی
اللہ ہی باقی رکھے اسلام ہمارا

ہم کوچۂ دل دار کے ہوتے ہیں تصدق
اے شیخ حرم ہے یہی احرام ہمارا

بیتابی دل کے سبب اس شوخ تک انشاؔ
پہنچے ہے بلا واسطہ پیغام ہمارا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.