کاش ابر کرے چادر مہتاب کی چوری
Appearance
کاش ابر کرے چادر مہتاب کی چوری
تا مجھ سے بھی ہو جام مئے ناب کی چوری
ٹک تکیہ پہ سر دھر کے رہا سو تو لگائی
صاحب نے ہمیں مسند کمخواب کی چوری
سیماب کے آنسو وہ سدا روئے الٰہی
کی جس نے ہو میرے دل بے تاب کی چوری
وہ عشق کہ سچ آنکھوں سے کاجل کو چرا لے
کس طرح نہ عاشق کے کرے خواب کی چوری
مجھ کو سر بازار گھسٹوا کے نکالا
کی اس نے ہی کچھ خانۂ نواب کی چوری
جس نے کہ مرے چہرہ سے آب آہ اڑا لے
ثابت ہوئی اس پر در نایاب کی چوری
شب سیندھ جو دی داغ کی ایک چور نے انشاؔ
تو ہو گئی سب صبر کے اسباب کی چوری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |