بند کر روزن در چاہو کہ رخنہ نہ رہے
بند کر روزن در چاہو کہ رخنہ نہ رہے
تاک پر دیکھے نہیں جھانکنے والے تم نے
منہ کی کھاؤ گے مری جان خدا خیر کرے
منہ لگا رکھے ہیں جس طرح رزالے تم نے
اف کروں دل کے جلن سے تو کلیجہ پھٹ جائے
بلبلو کیسے ہزاروں کئے نالے تم نے
دامن اشک نہ چھوڑوں گا میں اے دیدۂ تر
دل کیا میرا حسینوں کو حوالے تم نے
دست و پا وادئ وحشت کی تمنا تھی تمہیں
آبلے توڑ چکے خار نکالے تم نے
کب شکست ایسے سند ہے کہ دغا کی اے خار
ہاتھ سے پھوڑ لیے پاؤں کے چھالے تم نے
زلف زنجیر جنوں سمجھے بھی اے حضرت دل
کیا پڑا پیچ کہ پاؤں اپنے نکالے تم نے
کس گلستاں کی چمن بندی ہے اے مردم چشم
نخل مژگاں سے بھرے اشکوں سے تھالے تم نے
بلبلیں پھولوں سے نالاں ہیں کہ شبنم کے عوض
قطرہ سیماب کے کانوں میں ہیں ڈالے تم نے
چشم و ابرو سے کسی مست کی بے شک بہہ کے
مے کشو طاق پہ کیوں رکھے ہیں پیالے تم نے
کہیں صورت نہ بندھی نقش تمنا کی نسیمؔ
سیکڑوں سیم بدن سانچے میں ڈھالے تم نے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |