Author:دیا شنکر نسیم
Appearance
دیا شنکر نسیم (1811 - 1845) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- جب ہو چکی شراب تو میں مست مر گیا
- عشق میں دل بن کے دیوانہ چلا
- ہم تم ہیں جو ایک پھر جدائی کیسی
- اشک ٹپکے حال دل کا کھل گیا
- نام پر حرف نہ آنے دیجے
- چاندنی ہر شب کو کرتی ہے کنارا چاندنی
- عشق میں دل بن کے دیوانہ چلا
- میں بوسہ لوں گا بہانے بتائیے نہ مجھے
- پھانس لیتی ہے دل سمجھ لیں گے
- تکلف نہیں ہم سے زیبا تمہارا
- ساقی قدح شراب دے دے
- در رہا سب پہ جو سخنور ہے
- قرص خور کو دیکھ کر تسکیں رکھ اے مہمان صبح
- بتوں کی اگر خود نمائی نہ دیکھوں
- جب نہ جیتے جی مرے کام آئے گی
- بل پڑنے لگا ابروئے خم دار کے اوپر
- ٹکڑے جگر کے آنکھ سے بارے نکل گئے
- دل بہ دل آئینہ ہے دیر و حرم
- چمن میں دہر کے آ کر میں کیا نہال ہوا
- نقاب چہرہ سے وہ شعلہ رو اٹھا لیتا
- دل سے ہر دم ہمیں آواز لگا آتی ہے
- چمن میں گل نے کہیں دعوئے جمال کیا
- کیوں خفا رشک حور ہوتا ہے
- دل سے کہہ آہیں نہ ہر آن بھرے
- اس زلف کے خیال کا ملنا محال تھا
- خم نہ بن کر خود غرض ہو جائیے
- بے رخ ہے وہ پری دل دیوانہ کیا کرے
- دل کے آغوش میں وہ راحت جاں رہتا ہے
- جب سے تیری آنکھ ہم سے پھر گئی
- زاروں سے ڈریے پھولیے زر پر نہ زور پر
- عشق کی خوبی کہوں کیا آشنا
- دل سے ہر دم ہمیں آواز بکا آتی ہے
- صہبا کشوں کی خاک ہے ہر اک مقام پر
- یار ہے تو جس کو سمجھا غیر ہے
- جسے دیکھا ترا جویا ہے پیارے
- خوں بہا کا خط لا دعوی دیا
- قرار پر نہ ملو اضطراب ہو کہ نہ ہو
- ذلت ہے جو پھیلائے بشر پیش دگر ہاتھ
- بند کر روزن در چاہو کہ رخنہ نہ رہے
- جلد و ماہ تو گھر سے نکلا
- یاد میں اس سرو قد کے دل مرا
- محتسب سے ہوئی دم بھر بھی جو محفل خالی
- بالیں پہ ہو اے جان جو رعنائی سے گزرے
- چشم نم ہو تو امنڈ آتے ہیں دریا منہ پر
مثنوی
[edit]
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |