نقاب چہرہ سے وہ شعلہ رو اٹھا لیتا
Appearance
نقاب چہرہ سے وہ شعلہ رو اٹھا لیتا
تو چشم بد کو میں آنکھوں کا تل جلا لیتا
جو اس کے خاک کف پا بھی ملتے ہم چشمو
تو راہ پر اسے میں سرمہ سا لگا لیتا
جو ان لبوں سے نہ ہوتا مشابہ آب حیات
خضر نہ چھوڑ سکندر کو راستہ لیتا
ہوئے نہ تھے جو ابھی صاف پیچ زلفوں کی
بلا سے پنجۂ مژگاں ہی وہ لڑا لیتا
جو مجھ سے ہوتے وہ بے پردہ بد نظر کے لیے
نظر کی طرح سے آنکھوں میں میں چھپا لیتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |