کیوں خفا رشک حور ہوتا ہے
Appearance
کیوں خفا رشک حور ہوتا ہے
آدمی سے قصور ہوتا ہے
مئے الفت سے پھر گیا جو دل
صورت شیشہ چور ہوتا ہے
خاک عاشق سے جو درخت اگا
طور ہوتا ہے نور ہوتا ہے
جس کو دیکھا وہ اس زمانے میں
اپنے نزدیک دور ہوتا ہے
خاکساری وہ ہے کہ ذروں پر
روز باران نور ہوتا ہے
کس کی لیتا نہیں خبر رزاق
آلودگی ناصبور ہوتا ہے
اے ہوس نان داغ بس نہ لگا
گرم طوفاں تنور ہوتا ہے
کشتیٔ مے نہیں تو اے ساقی
بحر غم سے عبور ہوتا ہے
باغ میں جاؤ جاتے ہو جو نسیمؔ
صبح کو وہ ضرور ہوتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |