بہار آدھی گزر گئی ہائے ہم قیدی ہیں زنداں کے
Appearance
بہار آدھی گزر گئی ہائے ہم قیدی ہیں زنداں کے
گئے کچھ اور کچھ جاتے ہیں دن چاک گریباں کے
ہزاروں خوب رو گئے خاک میں گردش سے دوراں کے
جھلکتے رنگ میں دیکھو مقیش ریزے افشاں کے
گیا تو درد سر پر حسرت زخم دویم رہ گئی
وگرنہ ہم تری شمشیر کے مارے ہیں احساں کے
مرا لوہو بھی بعد از مرگ قاتل کے تصدق ہے
سنجاف سرخ مت سمجھے کوئی گرد اس کے داماں کے
ہوا ہے داغ بے قدری سے ان کی مشت خوں میرا
پڑے کوئلے ہی کب مہندی میں دست و پائے خوباں کے
جنوں سے خاک ہو گئے پر بھی عاشق ہات ملتے ہیں
بگولے سارے میں اٹکل کیا عزلتؔ بیاباں کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |