Author:ولی عزلت
Appearance
ولی عزلت (1692 - 1775) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- یار اٹھ گئے دنیا سے اغیار کی باری ہے
- وہ کیا دن تھے جو قاتل بن دل رنجور رو دیتا
- وقت بوسے کے مرا منہ اس کے لب سے جوں جڑا
- تجھ سے بوسہ میں نہ مانگا کبھو ڈرتے ڈرتے
- تجھ قبا پر گلاب کا بوٹا
- تیرہ بختوں کو کرے ہے نالۂ غمگیں خراب
- تیرہ بختوں کو کرے ہے نالۂ غمگیں خراب
- ترے لب بن ہے دل میں شعلہ زن مل جس کو کہتے ہیں
- شتاب کھو گئی پیری جوانی دو دن کی
- پھونک دے ہے منہ ترا ہر صاف دل کے تن میں آگ
- پھر آئی فصل گل اے یار دیکھیے کیا ہو
- نین میں خوں بھر آیا دل میں خار غم چھپا شاید
- ننگ نہیں مجھ کو تڑپنے سے سنبھل جانے کا
- نہ شوخیوں سے کرے ہیں وہ چشم گلگوں رقص
- مجھ قبر سے یار کیونکے جاوے
- مرے نزع کو مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
- میرے اشکوں کی گئی تھی ریل ویرانے پہ کیا گزرا
- موسم گل میں ہیں دیوانوں کے بازار کئی
- میں وہ مجنوں ہوں کہ آباد نہ اجڑا سمجھوں
- ماہ کامل ہو مقابل یار کے رو سے چے خوش
- مغز بہار اس برس اس بن بچا نہ تھا
- کفر مومن ہے نہ کرنا دلبراں سے اختلاط
- خنک جوشی نہ کرتے جوں صبا گر یہ بتاں ہم سے
- خدا شاہد بتو دو جگ سے یہ سودا ہے نروالا
- خدا کسی کوں کسی ساتھ آشنا نہ کرے
- خدا ہی پہنچے فریادوں کو ہم سے بے نصیبوں کے
- خط نے آ کر کی ہے شاید رحم فرمانے کی عرض
- کر رہے ہیں مجھ سے تجھ بن دیدۂ نمناک جنگ
- جنوں آور شب مہتاب تھی پی کی تمنا میں
- جوں گل ازبسکہ جنوں ہے مرا سامان کے سات
- جو عاشق ہو اسے صحرا میں چل جانے سے کیا نسبت
- جن دنوں ہم اس شب حظ کے سیہ کاروں میں تھے
- جاتی رہیں کدھر وہ محبت کی بانیاں
- جپے ہے ورد سا تجھ سے صنم کے نام کو شیخ
- جب تن نہ رہا میرا ہوں واصل جانانہ
- جب سے دلبر نے آنکھ پھیرا ہے
- ہوئے ہم جب سے پیدا اپنے دیوانے ہوئے ہوتے
- ہنسوں جوں گل ترے زخموں سے الفت اس کو کہتے ہیں
- ہے اس کی زلف سے نت پنجۂ عدو گستاخ
- گل رہے نہیں نام کو سرکش ہیں خاراں العیاذ
- غنچۂ دل مرا کھا کر گل خنداں میرا
- گھر یار کا ہم سے دور پڑا گئی ہم سے راحت ایک طرف
- غیر آہ سرد نہیں داغوں کے جانے کا علاج
- گرد باد افسوس کا جنگل سے ہے پیدا ہنوز
- گر میرے لہو رونے کا باران بنے گا
- فصل گل میں نئیں بگھولے اٹھتے ویرانوں کے بیچ
- دلوں میں رہئے جہاں کے ولے خدا کے ڈھب
- درد جوں شمع ملے ہے شب ہجراں مجھ کو
- بندے ہیں تیری چھب کے مہ سے جمال والے
- بہار آئی جنوں لے گا ہمارا امتحاں دیکھیں
- بہار آئی بتنگ آیا دل وحشت پناہ اپنا
- بہار آدھی گزر گئی ہائے ہم قیدی ہیں زنداں کے
- اسیری بے مزہ لگتی ہے بن صیاد کیا کیجے
- ارے الٹے زمانے مجھ پہ کیا سیدھا ستم لایا
- اے یار مجھ افسردۂ ہجراں کو پہنچ تو
- اے ناصح چشم تر سے مت کر آنسو پاک رہنے دے
- اگر میں معجزے کو خاکساری کے عیاں کرتا
- عبث توڑا مرا دل ناز سکھلانے کے کام آتا
- آج دل بے قرار ہے میرا
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |