تیرہ بختوں کو کرے ہے نالۂ غمگیں خراب (I)
Appearance
تیرہ بختوں کو کرے ہے نالۂ غمگیں خراب
جس طرح ہو جا صبا سے کاکل مشکیں خراب
جوں نسیم صبح غنچے گل کے سب برباد دے
سرد مہری سے بتوں کی ہیں دل رنگیں خراب
بے دماغی مت کر اے ظالم کہ جوں موج اور حباب
دل مرا کر دے ہے پل میں ابروئے پر چیں خراب
جوں جلے ہے شمع کا مشت زر اور تسبیح اشک
جس طرح سرکش کا ہے دنیا خراب اور دیں خراب
تھا بنا عزلتؔ وہ جب فولاد دل پرویز سے
تب تو تیشے نے کیا یوں خانۂ شیریں خراب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |