دلوں میں رہئے جہاں کے ولے خدا کے ڈھب
Appearance
دلوں میں رہئے جہاں کے ولے خدا کے ڈھب
کہ ہو جہاں پہ نہ ظاہر یہ ہے مرا مذہب
مجھے غرض نہیں جز یہ کہ یار نالہ سے
اثر جلاوے ہے جوں دود شعلہ یارب
کہا میں رات پتنگوں کو شمع کے آگے
گرو ہو آنکھ میں معشوق کی یہ کیا ہے ادب
تو کہنے لاگے اے عزلتؔ مرے سے عشق کے نئیں
نظر میں پاس ادب ہم کو جلنا ہے مطلب
ہماری راکھیں جو لے جا صبا سو ہو کر صبح
جلیں ہیں شعلۂ خورشید پر یہ دیکھ تعب
جلسے ہے راکھ کہیں عشق کا ہے یہ اعجاز
عجب یہ کیش ہے نام ہلاک یہاں ہے طرب
کہا میں تم کوں ہے راحت کی سعی جلنا جلد
غموں سے چھوٹنا اور شہرت اس سے ہے مطلب
اثر ہے عشق کا تم سے زیادہ شمع کے بیچ
کہ عمر اس کی کئی جلتے سو بھی جاں بر لب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |