بے وقت جو گھر سے وہ مسیحا نکل آیا
Appearance
بے وقت جو گھر سے وہ مسیحا نکل آیا
گھبرا کے مرے منہ سے کلیجہ نکل آیا
مدفون ہوا زیر زمیں کیا کوئی وحشی
کیوں خاک سے گھبرا کے بگولا نکل آیا
آئینہ میں منہ دیکھ کے مغرور ہوئے آپ
دو شکلوں سے کیسا یہ نتیجہ نکل آیا
زخمی جو کیا تم نے کھلے عشق کے اسرار
جو کچھ کہ مرے دل میں نہاں تھا نکل آیا
ٹھکرانے لگے دل کو تو برپا ہوئے طوفاں
قطرہ جو ہٹانے لگے دریا نکل آیا
اب رک نہیں سکتی ہے منیرؔ آہ جگر سوز
دم گھٹنے لگا منہ سے کلیجہ نکل آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |