Author:منیرؔ شکوہ آبادی
Appearance
منیرؔ شکوہ آبادی (1814 - 1880) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- کیوں کر شکار حسن نہ کھیلیں یہاں کے لوگ
- نشہ میں سہواً کر لی توبہ
- اور مجھ سا جان دینے کا تمنائی نہیں
- فوج مژگاں کا کچھ ارادہ ہے
- سخت جانی کا سہی افسانہ ہے
- ہاتھ ملواتی ہیں حوروں کو تمہاری چوڑیاں
- عکس رخ گلگوں سے تماشا نظر آیا
- خاکساری سے جو غافل دل غماز ہوا
- کچھ نہیں حاصل سپر کو چیر کو یا تلوار توڑ
- خوبان فسوں گر سے ہم الجھا نہیں کرتے
- جلسوں میں گزرنے لگی پھر رات تمہاری
- پہنچا ہے اس کے پاس یہ آئینہ ٹوٹ کے
- آئینہ کے عکس سے گل سا بدن میلا ہوا
- تصویر زلف و عارض گلفام لے گیا
- دشمن کی ملامت بلا ہے
- فصل بہار آئی ہے پیمانہ چاہئے
- بتوں کے گھر کی طرف کعبہ کے سفر سے پھرے
- آنکھیں خدا نے بخشی ہیں رونے کے واسطے
- حلقہ حلقہ گھر بنا لخت دل بیتاب کا
- دل تو پژمردہ ہے داغ گلستاں ہوں تو کیا
- جو ذوق ہے کہ ہو دریافت آبروئے شراب
- اے بت جو شب ہجر میں دل تھام نہ لیتے
- میری شمع انجمن میں گل ہے گل میں خاک ہے
- ابرو کی تیری ضرب دو دستی چلی گئی
- جب ہم بغل وہ سرو قبا پوش ہو گیا
- ثابت رہا فلک مرے نالوں کے سامنے
- میں روتا ہوں آہ رسا بند ہے
- آخر کو راہ عشق میں ہم سر کے بل گئے
- بے وقت جو گھر سے وہ مسیحا نکل آیا
- حال پوشیدہ کھلا سامان عبرت دیکھ کر
- ایسی ہوئی سرسبز شکایت کی کڑی بات
- وہ زلف ہوا سے مجھے برہم نظر آئی
- ہے عید لاؤ مے لالہ فام اٹھ اٹھ کر
- نازک ایسا نہیں کسی کا پیٹ
- قیدی ہوں سر زلف گرہ گیر سے پہلے
- تمہارے گھر سے پس مرگ کس کے گھر جاتا
- شب کے ہیں ماہ مہر ہیں دن کے
- ترچھی نظر سے دیکھیے تلوار چل گئی
- دنیا سے داغ زلف سیہ فام لے گیا
- ہوتی ہے ہار جیت پنہاں بات بات میں
- آمد تصور بت بیداد گر کی ہے
- سبزہ تمہارے رخ کے لئے تنگ ہو گیا
- زخمی نہ بھول جائیں مزے دل کی ٹیس کے
- راہ میں صورت نقش کف پا رہتا ہوں
- راہ کر کے اس بت گمراہ نے دھوکا دیا
- پیچ فقرے پر کیا جاتا نہیں
- کعبہ سے مجھ کو لائے سواد کنشت میں
- بڑھ چلا عشق تو دل چھوڑ کے دنیا اٹھا
- کرتا ہے باغ دہر میں نیرنگیاں بسنت
- غم سہتے ہیں پر غمزۂ بے جا نہیں اٹھتا
- ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے
- تیرے ہاتھوں سے مٹے گا نقش ہستی ایک دن
- اثر کر کے آہ رسا پھر گئی
- جدائی کے صدموں کو ٹالے ہوئے ہیں
- روز دلہائے مے کشاں ٹوٹے
- عمر باقی راہ جاناں میں بسر ہونے کو ہے
نظم
[edit]رباعی
[edit]- وہ بحر کرم جو مہرباں ہو جائے
- پھوڑے نے سفر میں سخت گھبرایا ہے
- مضمون اگر راہ میں ہاتھ آتا ہے
- کلکتہ کو ڈاک میں چلا ہوں جو میں آہ
- جراح کے سامنے کھولا پھوڑا
- ہر چند گناہوں سے ہوں میں نامہ سیاہ
- بے فائدہ رکھتا نہیں سر ہاتھوں پر
- اپنے آقا کی ہر گھڑی یاد میں ہوں
- عاشق ہی فقط نہیں ہے جنجالوں میں
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |