دشمن کی ملامت بلا ہے
Appearance
دشمن کی ملامت بلا ہے
یہ موم کا سانپ کاٹتا ہے
وسواس حساب حشر کیا ہے
گمناموں کو کون پوچھتا ہے
عالم مشتاق دید کا ہے
وہ بت نہ دکھائے منہ خدا ہے
وہ سیم بدن مگر خفا ہے
سونا جو حرام ہو گیا ہے
سر تا پا ہوں برنگ تصویر
کیا ضعف کا رنگ جم گیا ہے
قشقہ کھنچا ہے ابروؤں میں
دو نیمچے ایک پر تلا ہے
محفوظ افتادگی نے رکھا
تعویذ میں نقش بوریا ہے
گردش سے ملی مجھے سعادت
ہر آبلہ بیضۂ ہما ہے
جھڑتے ہیں پھول منہ سے اے گل
باتوں کا جھاڑ موتیا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |