جدائی کے صدموں کو ٹالے ہوئے ہیں
Appearance
جدائی کے صدموں کو ٹالے ہوئے ہیں
چلے جاؤ ہم دل سنبھالے ہوئے ہیں
زمانے کی فکروں نے کھایا ہے ہم کو
ہزاروں کے منہ کے نوالے ہوئے ہیں
گزند اپنے ہاتھوں سے پہنچا ہے ہم کو
یہ سانپ آستینوں کے پالے ہوئے ہیں
نہیں نام کو ان میں بوئے مروت
یہ گل رو مرے دیکھے بھالے ہوئے ہیں
نہیں اعتبار ایک دم زندگی کا
ازل سے قضا کے حوالے ہوئے ہیں
ہزاروں کو تھے سرفروشی کے دعوے
تصدق فدا ہونے والے ہوئے ہیں
ہم آواز ہیں عیش و غم دونوں لیکن
ترانے یہ ٹھہرے وہ نالے ہوئے ہیں
منیرؔ اب رہ حق میں لغزش نہ ہوگی
ید اللہ مجھ کو سنبھالے ہوئے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |