عمر باقی راہ جاناں میں بسر ہونے کو ہے
Appearance
عمر باقی راہ جاناں میں بسر ہونے کو ہے
آج اپنی سخت جانی سنگ در ہونے کو ہے
عالم پیری میں ہے داغ جوانی کا فروغ
یہ چراغ شام خورشید سحر ہونے کو ہے
آمد پیری میں غفلت ہے جوانی کی وہی
نیند سے آنکھیں نہیں کھلتیں سحر ہونے کو ہے
ہم کو رسوا کر کے رسوائی سے بچنا ہے محال
تو بھی تشہیر اے نگاہ فتنہ گر ہونے کو ہے
داغ عصیاں اک طرف اشک ندامت اک طرف
نوح کے طوفان سے جنگ شرر ہونے کو ہے
کون سی دھن ہو گئی دیکھیں دل صد پاش کو
یہ شکستہ ساز کس نغمہ کا گھر ہونے کو ہے
خلوت و کثرت میں مجھ سے پوچھتی ہے بیکسی
اس طرف ہو جاؤں میں بھی تو جدھر ہونے کو ہے
یوسف مضموں کو لائے فکر کہنہ اے منیرؔ
یہ زلیخا نوجواں بار دگر ہونے کو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |