کرتا ہے باغ دہر میں نیرنگیاں بسنت
کرتا ہے باغ دہر میں نیرنگیاں بسنت
آیا ہے لاکھ رنگ سے اے باغباں بسنت
ہم رنگ کی ہے دون نکل اشرفی کے ساتھ
پاتا ہے آ کے رنگ طلائی یہاں بسنت
جوبن پر ان دنوں ہے بہار نشاط باغ
لیتا ہے پھول بھر کے یہاں جھولیاں بسنت
موباف زرد رنگ ہے سنبل کی چوٹ میں
کھوتا ہے بوئے گل کی پریشانیاں بسنت
نواب نامدار ظفرؔ جنگ کے حضور
گاتی ہے آ کے زہرۂ گردوں مکاں بسنت
جام عقیق زرد ہے نرگس کے ہاتھ میں
تقسیم کر رہا ہے مے ارغواں بسنت
ہوتے ہیں طائران چمن نرگسی کباب
کہہ دو کہ اس قدر نہ کرے گرمیاں بسنت
چہرے تمام زرد ہیں دولت کے رنگ سے
کوٹھی میں ہو گیا ہے سراپا عیاں بسنت
نیلا ہوا ہے منہ گل سوسن کا باغ میں
لیتا ہے اختلاط میں کیا چٹکیاں بسنت
کڑوے دھرے ہوئے ہیں جو نواب کے حضور
باہر ہے اپنے جامہ سے اے باغباں بسنت
پکھراج کے گلاسوں میں ہے لالہ گوں شراب
سونے کا پانی پی کے ہے رطب اللساں بسنت
سرسوں جو پھولی دیدۂ جام شراب میں
بنت العنب سے کرنے لگا شوخیاں بسنت
زیر قدم ہے فرش بسنتی حضور کے
مصروف پائے بوس میں ہے ہر زماں بسنت
میں گرد پوش ہو کے بنا شاخ زعفراں
لپٹا ہوا ہے میرے بدن سے یہاں بسنت
کرتا ہوں اب تمام دعا پر یہ چند شعر
آیا پسند مجمع اہل زماں بسنت
جب تک کہ محو قہقہہ ہوں گل ہزار میں
رنگین تار ہے صفت زعفراں بسنت
یا رب ہزار سال سلامت رہیں حضور
ہو روز جشن عید یہاں جاوداں بسنت
احباب سرخ رو رہیں دشمن ہوں زرد رو
جب تک منائیں مردم ہندوستاں بسنت
زردی کی طرح بیضۂ بلبل میں چھپ رہے
اس باغ سے نہ جائے میان خزاں بسنت
تقدیر میں تھی فرقت یاران لکھنؤ
اس شہر میں منیرؔ کہاں تھا کہاں بسنت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |