تری طہارت کو شیخ کہہ تو کہاں سے لائیں اک آب جو ہم
Appearance
تری طہارت کو شیخ کہہ تو کہاں سے لائیں اک آب جو ہم
طواف دل کا ہے قصد ہم کو کریں ہیں آنسو سے نت وضو ہم
بتنگ آئے ہیں زندگی سے رہیں گے خوف فنا میں کب تک
جو ہونی ہو سو شتاب ہووے کھڑے ہیں قاتل کے رو بہ رو ہم
رکھے تو جب تک جہاں میں یارب ترے کرم سے امید یہ ہے
رہے نہ مطلق تلاش دولت کریں نہ دنیا کی جستجو ہم
خزاں نے سب کی بہار کھو دی رہا نہ سنبل بچی نہ ریحاں
گلوں کو دیکھا ہوئے پریشاں چمن سے نکلے برنگ بو ہم
غم و الم نے تو کر رکھا ہے ہمارے چہرے کو زرد ؔجوشش
لہو کے آنسو اگر نہ روئیں نہ ہوں محبت میں سرخ رو ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |