Author:جوشش عظیم آبادی
Appearance
جوشش عظیم آبادی (1737 - 1801) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- یار کے تیر کا نشانہ ہوں
- یاد ہیں وے دن تجھے ہم کیسے آواروں میں تھے
- وہ سعی قفس میں کر کہ ٹوٹے
- اٹھ گئے یاں سے اپنے ہم دم تو
- اس شرمگیں کے منہ پہ نہ ہر دم نگاہ رکھ
- اس کمر کے خیال میں ہیں ہم
- تجھ سے ظالم کو اپنا یار کیا
- تجھ سے ہی کیا وفا کی نہیں خوش نگاہ چشم
- تجھے اے شعلہ رو کب چھوڑتا ہوں
- تری طہارت کو شیخ کہہ تو کہاں سے لائیں اک آب جو ہم
- تنہائی سے ہے صحبت دن رات جدائی میں
- شیخ کو کعبے سے جو مقصود ہے
- سامنے اس کے رو نہیں سکتا
- پیری میں بھلا ڈھونڈھئے کیا بخت جواں کو
- پریشان اے زلف بہر دم نہ ہو
- پڑتی ہے نظر جب کہ پر و بال پر اپنے
- نوبت اپنی تو جان تک پہنچی
- نالۂ دل کی تو کوتاہی نہیں
- نہیں معتقد جو ترے دید کا
- منہ بنائے ہوئے پھرتا ہے وہ کل سے ہم سے
- مرے جب تک کہ دم میں دم رہے گا
- مرنا تو بہتر ہے جو مر جائیے
- مر رہتے ہیں در پر ترے دو چار ہمیشہ
- لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ
- لب پر جو مرے آہ غم آلود نہیں ہے
- کیوں کہوں قامت کو تیرے اے بت رعنا الف
- کیا بدگمانیاں ہیں مری جان لیجئے
- کیجئے رندی کا پیشہ شیشہ شیشہ ہے شراب
- خوش نما گرچہ مد کا ہالہ ہے
- کشتی ہے تباہ دل شدوں کی
- کافر ہوں گر کسی کو دیوانہ جانتا ہوں
- جلا بلا ہوں گرفتار حال اپنا ہوں
- جب ہوئے تم چمن میں آن کھڑے
- اس تند خو سے جوں ہی مری آنکھ لڑ گئی
- اس غم کدے سے کچھ نہ لگا ہاتھ ہمارے
- ان نے پہلے ہی پہل پی ہے شراب آج کے دن
- ان دنوں وہ ادھر نہیں آتا
- ہم ہی کرتے نہیں زلفوں کو تری ہار پسند
- ہر چند کہ دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے
- ہیں دل جگر ہمارے یہ مہر و ماہ دونوں
- ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایک
- حال اب تنگ ہے زمانے کا
- گو کہ محتاج ہیں گدا ہیں ہم
- گر کوئی کاٹ لے سر بھی ترے دیوانے کا
- دنیا کی جستجو تو ہم سے نہ ہو سکے گی
- دیوانہ ہوں مجھے نہ تساہل سے باندھئے
- دل میں ہر چند ہے خیال اس کا
- دامان دل سے گرد تعلق کو جھاڑئیے
- چھوڑیئے کس طرح سے مے نوشی
- چھوڑ دے مار لات دنیا کو
- چشم خونخوار ابروئے خم دار دونوں ایک ہیں
- چشم سے غافل نہ ہوا چاہئے
- بڑھتی جاتی ہے میری اس کی چاہ
- اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے
- عیش و عشرت ہی میں کچھ ہے زندگی
- اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے
- اہل جہاں کے ملنے سے ہم احتراز کر
- آج گلشن میں کس کا پرتو ہے
- آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے
قطعہ
[edit]
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |