شیخ کو کعبے سے جو مقصود ہے
Appearance
شیخ کو کعبے سے جو مقصود ہے
وہ کنشت دل ہی میں موجود ہے
میرے جلنے کی کسی کو کیا خبر
سوزش دل آتش بے دود ہے
نے حرم سے کام ہے نے دیر سے
خانۂ دل ہی مرا مسجود ہے
فرق مت کر عاشق و معشوق میں
خود ایاز اور آپ ہی محمود ہے
کیا پری کیا حور کیا جن و بشر
سب میں وہ شاید مرا مشہود ہے
مشرب عشاق میں اے زاہدو
اس کا جو مخلوق ہے معبود ہے
سنگ و آہن کو یہ کرتی ہے گداز
آہ ہے یہ نغمۂ داؤد ہے
کس سے اے ؔجوشش کہوں میں درد دل
میرے اس کے بولنا مفقود ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |