دامان دل سے گرد تعلق کو جھاڑئیے
Appearance
دامان دل سے گرد تعلق کو جھاڑئیے
جوں سرو پاؤں باغ تجرد میں گاڑئیے
ممکن نہیں کہ دیکھیے روئے شگفتگی
جب تک برنگ غنچہ گریباں نہ پھاڑیے
جو کچھ کہ ہاتھ آئے اڑا دیجئے اسے
قاروں کی طرح مال زمیں میں نہ گاڑیئے
بستی میں دل کی حرص و ہوا کا قیام ہے
توفیق ہو رفیق تو اس کو اجاڑیے
ؔجوشش کوئی ہزار کرے یاں مخالفت
اپنی طرف سے تو نہ کسی سے بگاڑئیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |