گر کوئی کاٹ لے سر بھی ترے دیوانے کا
Appearance
گر کوئی کاٹ لے سر بھی ترے دیوانے کا
پر یہ سودائے محبت ہے نہیں جانے کا
مست رکھ یاد میں اس چشم کی تا روز جزا
منہ نہ دکھلا مجھے یارب کسی مے خانے کا
میرے دل کو بھی نہ ہووے ہوس بوسہ اگر
آشنا لب سے ترے لب نہ ہو پیمانے کا
حسن اور عشق کا مذکور نہ ہووے جب تک
مجھ کو بھاتا نہیں سننا کسی افسانے کا
کیوں نہ مضطر ہوں اسے دیکھ کے دیکھو تو سہی
شمع کے سامنے کیا حال ہے پروانے کا
ہاتھ اٹھتا نہیں اے یار جو سلجھانے سے
دل تری زلف سے الجھا ہے مگر شانے کا
گو کہ مر جائے ترے عشق میں ؔجوشش لیکن
شکوۂ جور و جفا منہ پہ نہیں لانے کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |