لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ
Appearance
لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ
جلے عشق سوزاں سے ہم اور کاغذ
نہ رکھ دیدۂ تر پہ مکتوب اس کا
مخالف ہیں آپس میں نم اور کاغذ
خدا سے بھی ڈر لکھ نہ احوال دل کا
دوانے یہ سوز رقم اور کاغذ
لکھا صفحۂ دل پہ مکتوب تجھ کو
نہ تھا تیرے لائق صنم اور کاغذ
مرے دل کو اے چشم نامے کا اس کے
خوش آتا ہے حسن رقم اور کاغذ
ذرا دیر تیرے جو تھم جائیں آنسو
رہے ہاتھ میں کوئی دم اور کاغذ
جو کچھ صفحۂ دل میں اپنے ہے ؔجوشش
رکھے ہے یہ خوبی تو کم اور کاغذ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |