نہیں معتقد جو ترے دید کا
Appearance
نہیں معتقد جو ترے دید کا
میں دیوانہ ہوں اس کی فہمید کا
تعلق کسی سے نہیں غیر حق
یہ عالم ہوا اپنی تجرید کا
خیال دو عالم ہوا دل سے دور
یہاں وقر کیا جام جمشید کا
ہم آغوش وہ مجھ سے ہو یا نہ ہو
دوانا ہوں میں دید وا دید کا
یہاں نا مرادی ہے عین مراد
نہ ہو بارور نخل امید کا
یہ کوچے میں لیلہ کے مجنوں نہ ہو
ارم میں ہے گویا شجر بید کا
ترا شعر ؔجوشش تجھے ہے پسند
تو محتاج ہے کس کی تائید کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |