Jump to content

تو مل اس سے ہو جس سے دل ترا خوش

From Wikisource
تو مل اس سے ہو جس سے دل ترا خوش
by تاباں عبد الحی
302654تو مل اس سے ہو جس سے دل ترا خوشتاباں عبد الحی

تو مل اس سے ہو جس سے دل ترا خوش
بلا سے تیری میں نا خوش ہوں یا خوش

خوشی تیری جسے ہر دم ہو درکار
کوئی اس سے نہیں ہوتا ہے نا خوش

کوئی اب کے زمانہ میں نہ ہوگا
الٰہی آشنا سے آشنا خوش

فلک کے ہاتھ سے اے خالق خلق
کوئی نہیں آ کے دنیا میں رہا خوش

ترا سایہ ہو جس پر اس کو ہرگز
نہ آوے سایۂ بال ہما خوش

قفس میں آہ حد ایذا ہے ہم کو
نہ آتی کاش گلشن کی ہوا خوش

اگر لاوے تو بو اس گل بدن کی
تو ہوں تجھ سے نہایت اے صبا خوش

کیا قتل ان نے مجھ کو غیر سے مل
ہوا دشمن جدا خوش وہ جدا خوش

نصیحت کی تھی ان نے میکشوں کو
بہت مستوں نے زاہد کو کیا خوش

موئے آتش میں جل پروانہ و شمع
محبت سے میں ان کی حد ہوا خوش

کیا چاک اے جنوں ترا بھلا ہو
کبھو میں اس گریباں سے نہ تھا خوش

گیا تھا سیر کو لے ساقی و مے
نہ آئی باغ کی آب و ہوا خوش

کیا قاتل نے بسمل کو مرے دیکھ
مجھے لگتا ہے اس کا لوٹنا خوش

سنے کیوں کر وہ لبیک حرم کو
جسے ناقوس کی آئے صدا خوش

ستانا بے دلوں کے دل کو ہر دم
تمہیں اے دلبرو آتا ہے کیا خوش

سمود و قاقم و سنجاب ہے پشم
مجھے آتا ہے ٹوٹا بوریا خوش

صنم کے پاس سے قاصد پھرا ہے
خدا جانے کہ میں نا خوش ہوں یا خوش

کوئی خوش ہووے خوباں کی وفا سے
مجھے تو ان کی آتی ہے جفا خوش

نہ چھوڑوں گا کبھی میں بت پرستی
نہ ہو گو مجھ سے اے تاباںؔ خدا خوش


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.