جو ہوتا آہ تری آہ بے اثر میں اثر
Appearance
جو ہوتا آہ تری آہ بے اثر میں اثر
تو کچھ تو ہوتا دل شوخ فتنہ گر میں اثر
بس اک نگاہ میں معشوق چھین لیں ہیں دل
خدا نے ان کی دیا ہے عجب نظر میں اثر
نہ چھوڑی غم نے مرے اک جگر میں خون کی بوند
کہاں سے اشک کا ہو کہیے چشم تر میں اثر
ہو اس کے ساتھ یہ بے التفاتی گل کیوں
جو عندلیب کے ہو نالۂ سحر میں اثر
کسی کا قول ہے سچ سنگ کو کرے ہے موم
رکھا ہے خاص خدا نے یہ سیم و زر میں اثر
جو آہ نے فلک پیر کو ہلا ڈالا
تو آپ ہی کہیے کہ ہے گا یہ کس اثر میں اثر
جو دیکھ لے تو جہنم کی پھیرے بندھ جائے
ہے میری آہ کے وہ ایک اک شرر میں اثر
بگاڑیں چرخ سے ہم عیشؔ کس بھروسے پر
نہ آہ میں ہے نہ سوز دل و جگر میں اثر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |