حشر تک یاں دل شکیبا چاہئے
Appearance
حشر تک یاں دل شکیبا چاہئے
کب ملیں دلبر سے دیکھا چاہئے
ہے تجلی بھی نقاب روئے یار
اس کو کن آنکھوں سے دیکھا چاہئے
غیرممکن ہے نہ ہو تاثیر غم
حال دل پھر اس کو لکھا چاہئے
ہے دل افگاروں کی دل داری ضرور
گر نہیں الفت مدارا چاہئے
ہے کچھ اک باقی خلش امید کی
یہ بھی مٹ جائے تو پھر کیا چاہئے
دوستوں کی بھی نہ ہو پروا جسے
بے نیازی اس کی دیکھا چاہئے
بھا گئے ہیں آپ کے انداز و ناز
کیجئے اغماض جتنا چاہئے
شیخ ہے ان کی نگہ جادو بھری
صحبت رنداں سے بچنا چاہئے
لگ گئی چپ حالیؔ رنجور کو
حال اس کا کس سے پوچھا چاہئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |