خوباں جو پہنتے ہیں نپٹ تنگ چولیاں
Appearance
خوباں جو پہنتے ہیں نپٹ تنگ چولیاں
ان کی سجوں کو دیکھ مریں کیوں نہ لولیاں
ہونٹوں میں جم رہی ہے ترے آج کیوں دھری
بھیجی تھیں کس نے رات کو پانوں کی ڈھولیاں
جس دن سے انکھڑیاں تری اس کو نظر پڑیں
بادام نے خجل ہو پھر آنکھیں نہ کھولیاں
تارے نہیں فلک پہ تمہارے نثار کو
لایا ہے موتیوں سے یہ بھر بھر کے جھولیاں
سنبل کو پیچ و تاب عجب طرح کی ہوئی
زلفیں جب ان نے جا کے گلستاں میں کھولیاں
گلشن میں بحثنے کو تمہارے دہن کے ساتھ
کھولا تھا منہ کو کلیوں نے پر کچھ نہ بولیاں
تاباں قفس میں آج ہیں وے بلبلیں خموش
کرتی تھیں کل جو باغ میں گل سے کلولیاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |