رویا نہ ہوں جہاں میں گریباں کو اپنے پھاڑ
Appearance
رویا نہ ہوں جہاں میں گریباں کو اپنے پھاڑ
ایسا نہ کوئی دشت ہے ظالم نہ کوئی اجاڑ
آتا ہے محتسب پئے تعزیر مے کشو
پگڑی کو اس کی پھینک دو داڑھی کو لو اکھاڑ
ثابت تھا جب تلک یہ گریباں خفا تھا میں
کرتے ہی چاک کھل گئے چھاتی کے سب کواڑ
میرے غبار نے تو ترے دل میں کی ہے جا
گو میری مشت خاک سے دامن کی تئیں تو جھاڑ
تاباںؔ زبس ہوائے جنوں سر میں ہے مرے
اب میں ہوں اور دشت ہے یہ سر ہے اور پہاڑ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |