Jump to content

زمانہ (الطاف حسین حالی)

From Wikisource
319415زمانہالطاف حسین حالی

جب زمانہ بدلے تم بھی بدل جاؤ۔زمانہ کی نیرنگیاں مشہور اور اس کی تلون مزاجیاں ضرب المثل ہیں۔ وہ سدا ایک حال پر نہیں رہتا۔ وہ ہمیشہ ایک چال پر نہیں چلتا۔ وہ گرگٹ کی طرح برابر رنگ بدلتا رہتاہے۔ وہ اس پتھر کی طرح جو پہاڑ کی چوٹی سے لڑھکایا جائے، ہزاروں پلٹے کھاتا چلا جاتا ہے۔ وہ جوروپ بھرتا ہے اس کے چہرہ پر کھل جاتا ہے۔ وہ جو ٹھاٹھ بدلتا ہے اس کا رنگ ساری مجلس پرچھا جاتا ہے۔ وہ کبھی دن کی روشنی میں اور کبھی رات کی تاریکی میں، کبھی گرمی کی تپش میں اور کبھی جاڑے کی ٹھر میں ظہور کرتا ہے، پر کسی بھیس میں اس کا رنگ جمے بغیر نہیں رہتا۔ جب وہ دن کا بانا بدلتا ہے تو رات کے سارے عمل باطل کر دیت اہے۔ سوتوں کو نیند سے جگاتا ہے۔ نکموں کو کام پر لگاتا ہے۔ طبیعتوں سے سستی کو دور کرتا ہے اور دلوں کو امنگوں سے بھر دیتا ہے۔ جب وہ رات کا برقع اوڑھتا ہے تو دن کی ساری کائنات حرف غلط کی طرح مٹا دیتا ہے۔ مزدوروں کا دل محنت سے اچاٹ کرتا ہے، جفاکش کو بستر راحت کی طرف کھینچ کر لاتا ہے اورساری دنیا پر غفلت کا پردہ ڈال دیتا ہے۔ گرمی میں اس کی بازی کا نقشہ کچھ اور ہے اورجاڑے میں اس کی حکومت کا ڈھنگ کچھ اور۔مبارک ہیں وہ جنہوں نے اس کے تیور پہچانے اور اس کی چال ڈھال کو نگاہ میں رکھا۔ جدھر کو وہ چلااس کے ساتھ ہو لئے۔ اس نے رخ پھیرا اس کے ساتھ پھر گئے۔ گرمی میں گرمی کا سامان کیا اور جاڑے میں جاڑے کی تیاری کی۔ دن کودن کی طرح بسر کیا اور رات کو رات کی طرح کاٹا اور بدنصیب ہیں وہ جنہوں نے اس کی پیروی سے جی چرایا اور اس کی فراہمی سے ناک چڑھائی۔ گرمی پڑے پر انہوں نے جاڑے کے کپڑے نہ اتارے اور ہلکے پھلکے نہ بنے۔ دن نکلا پرانہوں نے کروٹ نہ بدلی اور خواب شبینہ سے بیدار نہ ہوئے اوراب وہ بہت جلد دیکھیں گے کہ پیچھے کون رہا اور منزل تک کون پہنچا؟جو لوگ زمانے کی پیروی نہیں کرتے وہ گویا زمانے کو اپنا پیرو بنانا چاہتے ہیں مگریہ ان کی سخت خام خیالی ہے۔ چند مچھلیاں دریا کے بہاؤ کو نہیں روک سکتیں اور جھاڑیاں ہوا کا رخ نہیں پھیر سکتیں۔ اسی لئے ایک پختہ کار شاعر نے کہا ہے۔ ع زمانہ باتو ساز دو تو باز مانہ بساز۔اور عرب کے ایک حکیم کا قول ہے کہ ’’در مع الدھر کیف ما دار (یعنی جدھر کو زمانہ پھرے اس کے ساتھ پھر جاؤ) شیخ اکبر فرماتے ہیں کہ ’’صرھیولی لکل صورۃ۔‘‘ (یعنی اپنی ذات میں ایسی قابلیت پیدا کرو کہ جس رنگ کو چاہے فوراً قبول کرلے) یہ اس لئے فرمایا کہ زمانہ کبھی انقلاب سے خالی نہیں رہتا اور اس کا مقابلہ انسان ضعیف البنیان سے نہیں ہو سکتا۔ پس انسان میں ایسی قابلیت ہونی ضرور ہے کہ جیسی ضرورت دیکھے ویسا بن جائے تاکہ زمانے کا کوئی انقلاب اس کو سخت صدمہ نہ پہنچائے۔ آندھی کے پرزور حملے انہیں تناور درختوں کو نقصان پہنچاتے ہیں جو اپنی جگہ سے ٹلنا نہیں چاہتے پر چھوٹے چھوٹے لچکدار پودے جو ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ جھک جاتے ہیں ہمیشہ برقرار رہتے ہیں۔ اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عارضی یا چند روزہ کامیابی متقضائے وقت کی مخالفت میں بھی حاصل ہو سکتی ہے مگر جو لوگ دنیا میں آ کر کامیابی کا پورا پورا استحقاق حاصل کر گئے، وہ وہی تھے جنہوں نے متقضائے وقت کو ہاتھ سے نہ دیا اور جیسا زمانہ دیکھا ویسا بن گئے۔حکیم اوحدالدین انوری 1 جس نے اپنے زمانے کے تمام علوم میں کامل دستگاہ حاصل کی تھی اور پھر عجم کے ان تین شاعروں میں شمار کیا گیا جو ’’پیمبرشعر‘‘ مانے گئے ہیں 2 اگر وہ متقضائے وقت کی پیروی نہ کرتا تو یہ شہرت اورعزت اس کو ہرگز حاصل نہ ہوتی۔ وہ خراسان کی ایک بستی زاکان نامی میں ٹھہرا ہوا تھاکہ اتفاق سے اس عہد کے ملک الشعراء ابوالفرح سنجری کا لشکر بھی وہیں آ کر ٹھہرا۔ انوری نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سارا جلوس سنجری کے ساتھ ہے، کہا، ’’سبحان اللہ علم کا مرتبہ ایسا بلند اور میں اس قدر مفلس، میں ایسا ذلیل اور اس شخص کو یہ جاہ وحشمت؟ اب مجھ کو بھی قسم ہے جو شاعر ہی بن کر نہ کھاؤں۔‘‘ چنانچہ اسی رات کو ایک قصیدہ سلطان 3 سنجر کی مدح میں لکھ کر تمام کیا، جس کا مطلع یہ ہے۔گر دل و دست بحر و کاں باشددل و دست خدائیگاں باشدپھرتمام عمرشاعری کی بدولت خوش حال اور فارغ البال رہا اوردنیا میں شہر ت اور بلند نامی حاصل کی۔ایک مجلس میں شیخ ابوالفضل کے کمالات اور ترقیات کا مذکور تھا۔ ایک صاحب بولے، ’’وہ باایں ہمہ کمالات اگر اس زمانہ (یعنی انیسویں صدی) میں ہوتا تو شاید عدالتوں میں عرضی نویسی کرکے اپنا پیٹ پالتا۔‘‘ ہم نے کہا، ’’اگر وہ اس زمانے میں ہوتا تو ہرگز اپنی کامیابی کا ذریعہ اس لیاقت کو نہ گردانتا جس کی بدولت اس نے سولہویں صدی عیسوی میں ترقیات حاصل کی تھیں بلکہ اس عہد میں وہ کم سے کم ایم۔ اے یا ایل ایل ڈی کا درجہ ضرور حاصل کرتا اور کچھ نہیں تو لندن کے کسی نامی گرامی اخبار کا کارسپانڈنٹ (نامہ نگار) ضرور ہوتا۔‘‘ یہ ہمارا ایک سرسری جواب تھا جو اس وقت بلا تامل زبان سے نکل گیا۔ مگراب غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب بالکل صحیح تھا۔ ابوالفضل کی ذات میں ہرزمانے کا رنگ بدلنے کی ایسی قابلیت تھی کہ وہ جس زمانے میں ہوتا اس زمانے کی حیثیت کے موافق ضرور اپنے ہم چشموں میں ممتاز ہوتا۔ وہ ایک رقعہ میں جو غالباً اس نے اپنے باپ کے نام لکھا ہے تحریر کرتا ہے کہ ’’بعض لوگ میری نسبت یہ کہتے ہیں کہ ایک طالب علم کواس قدر منصب جلیل تک پہنچا دینا بادشاہ کو زیبانہ تھا۔ اس لے میری بھی اب یہی تمنا ہے کہ سپہ گری کا کوئی کارنمایاں دکھاؤں۔‘‘ اس کا یہ قول نرادعویٰ ہی دعویٰ نہ تھا بلکہ اس نے مرتے وقت نرسنگھ 4 دیوبندیلے کے مقابلے میں اپنی قابلیت کا جوہر سب پرظاہر کر دیا۔ مقابلے کے وقت اس کے اکثر ہمراہی بھاگ گئے تھے اور چندآدمی جو بچے تھے وہ اس کو یہ صلاح دے رہے تھے کہ اس تھوڑی سی جمعیت پر بندیلے کا مقابلہ کرنا مصلحت نہیں مگر وہ نہایت ترشی سے یہ کہہ کر کہ ’’مگر بگریزم؟‘‘ اکیلا فوج مخالف میں جا گھسا۔ لیکن چونکہ پیمانہ عمر لبریز ہو چکا تھا، گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرا اور اس کے گرتے ہی مخالفوں نے شیخ کا کام تمام کر دیا۔سلطان شہاب الدین غوری 5 کو مؤرخوں نے بہت سخت اور تندمزاج لکھا ہے اور اس کے ثبوت کے لئے اس کی وہ زیادتی پیش کرتے ہیں جو فتح اجمیر کے بعداس سے ظہور میں آئی یعنی کئی ہزار آدمی جوفتح کے بعد بچ رہے تھے، ان سب کو تیغ بے دریغ کے حوالے کیا۔ مگر باوجود اس کے اس کی سختی اور تند مزاجی کو اس سبب سے مذموم نہیں سمجھا کہ جس فتنہ و فساد کے زمانے میں وہ مسلط ہوا تھا اس کے لئے ایسے ہی مزاج کا بادشاہ ہونا سزاوار تھا۔جس طرح دنیا کی بہبودی کا مدار مقتضائے وقت کی موافقت پر ہے اسی طرح دین کی کامیابی بھی اسی پر موقوف ہے۔ کتاب مقدس (توریت) میں خداتعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کی بڑی تعریف اس بات پر کی ہے کہ وہ مصریوں کے تمام علوم میں کامل تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبوت جیسا جلیل القدر منصب بھی اسی شخص کو عطا ہوتا ہے جس میں زمانہ حال کے حسب حال ہونے کی پوری پوری قابلیت ہوتی ہے۔ہمارے نبی برحق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو دعوت اسلام میں نمایاں کامیابی حاصل کی اس کا بڑا ذریعہ عبارات قرآنی کی حلاوت اور ملاحت تھی۔ جس کا مدار بالکل متقضائے وقت کی موافقت پر تھا کیونکہ اس وقت شعروشاعری کے شور سے تمام عرب گونج رہا تھا اور فصاحت و بلاغت کے دعوے نہایت توجہ سے سنے جاتے تھے۔ کوئی کمال علم ادب کے ہم پلہ نہ سمجھا جاتا تھا اور کوئی ہتھیار تیغ زبان کے برابر کارگر نہ ہوتا تھا۔ آں حضرت (صلعم) کے بعد پہلی اور دوسری خلافت میں جو اسلام کو ترقی روز افزوں نصیب ہوئی اور کوئی فتنہ ایسا حادث نہ ہوا جو اس کے زور وطاقت کی مزاحمت کرتا، اس کااصلی سبب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ منصب خلافت کے لئے آگے پیچھے ایسے دو شخص انتخاب کئے گئے جن کا چلن اور برتاؤ بالکل متقضائے وقت کے موافق تھا اور اس سبب سے زمانہ ان کا معین و مددگار بن گیا۔ چنانچہ اسی مصلحت کے لئے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب مرتضویؓ کے استخلاف کی نسبت وانی لااراکم فاعلین 6 فرمایا اور شیخین ؓ 7 کی نبست کچھ تردد ظاہر نہ فرمایا۔عمرفاروقؓ 8 کی شدت چونکہ مقتضائے وقت کے موافق تھی اس لئے مرزعہ اسلام کے حق میں ابررحمت کا کام کرگئی اور عثمان 9 ذی النورینؓ کی مروت جو انہوں نے مروان بن الحکم 10 وغیرہ کے ساتھ برتی، چونکہ وہ متقضائے وقت کے موافق نہ تھی اسی لئے اس فتنہ عظیم کی اصل قرار دی گئی جو آپؓ کے آخرعہد خلافت میں رونما ہوا اور جس کا نتیجہ آپ کی شہادت تھا۔ ایک زمانے میں متقضائے وقت یہ تھا کہ محدثین اسلام (اسی خیال سے کہ رسول مقبولؐ کے ارشادات تمام و کمال فراہم ہو جائیں) روایات کے اخذ کرنے میں رطب ویا بس کی کچھ تمیز نہ کرتے تھے۔ پھر دوسرے زمانے کا مقتضایہ ہوا کہ ان روایتوں کی تنقید اور ان کے راویوں کی چھان بین کی جائے اورصحیح کو سقیم سے، قوی کو ضعیف سے، معروف کو منکر سے اور ثابت کو موضوع سے جدا کیا جائے۔ اگروہ پہلا طبقہ متقضائے وقت کا لحاظ نہ کرتا توعلم نبیؐ کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا۔ اور اگر یہ دوسرا گروہ کھڑا نہ ہوتا تو حق وباطل اور صدق و کذب کا امتیاز دشوار ہو جاتا۔بڑی دلیل اس بات کی کہ متقضائے وقت کا لحاظ ضروریات دین سے ہے، وہ روایت ہے جس کو مسلم 11 نے ابوہریرہ 12 سے روایت کیا ہے۔ اس روایت کا ماحصل یہ ہے کہ آں حضرت صلعم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص صدق دل سے لاالہ الا اللہ کہے گا وہ ضرور بخشا جائےگا۔‘‘ عمر فاروق یہ سن کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ’’اس بشارت سے لوگ اعمال صالحہ کی بجاآوری میں قصور کریں گے۔ آپ ؐ نے فاروق اعظم ؓ کی اس رائے کو پسند فرمایا اورتاوقتیکہ روایات کی تدوین کرنے کی ضرورت نہ پڑی یہ خوشخبری تمام امت میں عام نہ ہوئی۔ الغرض دنیا کی بہبودی یا دین کی کامیابی متقضائے وقت کی موافقت کے بغیرحاصل نہیں ہو سکتی۔مگر اس موافقت سے ہماری یہ مراد ہرگز نہیں کہ مثلاً بے دینی اور الحاد کے زمانے میں دین ومذہب سے ہاتھ اٹھا بیٹھیں اورعیش و عشرت کے زمانے میں جفاکشی اورمحنت سے دست بردار ہو جائیں، یا جہاں خوشامد کا بازارگرم ہو وہاں خوشامدی بن جائیں اور جہاں مسخرہ پن کا زور ہو وہاں غیرت اور حمیت کو بالائے طاق رکھ دیں۔ نہیں بلکہ ہماری رائے میں کوئی برے سے برا زمانہ ایسا نہیں ہوتا جس میں متقضائے وقت کے موافق کوئی نہ کوئی جائز طریقہ کامیابی کا موجود نہ ہو۔ جب فلسفہ یونانیہ یونانی زبان سے عربی زبان میں منتقل ہوا اور بطلیموس 13 اور ارسطو 14 کے خیالات عرب اورعجم کے گلی کوچوں میں منشتر ہو گئے تو الحاد اور بے دینی نے لوگوں کے دلوں میں چٹکیاں لینی شروع کیں۔ یہاں تک کہ نصوص قرآنی اورحادیث نبوی پر دھڑا دھڑ اعتراض ہونے لگے اور جابجا دین میں رخنے نکلنے لگے، اس وقت علما کے فروغ اور کامیابی کے دو طریقے پائے جاتے تھے۔ ایک ناجائز اور دوسرا جائز۔ ناجائز طریقہ یہ تھا کہ مسائل فلسفیہ کی تائید کرکے الحاد کی آگ کو اور مشتعل کر دیتے اور آزادی جیسی من بھاتی چیز کو دنیامیں پھیلا کر دنیوی فروغ حاصل کرتے۔جائز ذریعہ یہ تھا کہ شریعت اور حکمت میں تطبیق یا مسائل حکمیہ کی تغلیط کرکے الحاد کی آنچ سے دین کو بچاتے اور معترضوں کی زبان بند کرتے۔ چنانچہ علمائے اسلام نے (شکراللہ سعیھم) یہی جائز طریقہ اختیار کیا اور فلسفہ یونانیہ کے مقابلے میں ایک جدا فلسفہ قائم کیا جواہل اسلام میں علم کلام کے نام سے مشہور ہے۔جلال الدین اکبر کا زمانہ (جیسا کہ اکثرمؤرخوں نے لکھا ہے) ظاہر اًبے دینی اورالحاد کا زمانہ ثابت ہوتا ہے اور اس سبب سے ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کی کامیابی کا ذریعہ یہی بے دینی اور الحادہو، مگر تاریخ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے عہد میں کامیابی کا بڑا ذریعہ شجاعت و بہادری یا فضل و کمال اورعلم و ہنر تھا۔ کیونکہ اس کے درباریوں اورمقربوں میں کوئی آدمی ایسا نہیں معلوم ہوتا جس نے بغیر کسی کمال یا ہنر کے محض بے دینی اورالحاد کے ذریعہ سے معتدبہ امتیاز حاصل کیا ہو بلکہ اس کے ارکان دولت میں ایسے آدمی پائے جاتے ہیں جو اپنے مذہبی قواعد کے نہایت پابند تھے اورجنہوں نے صرف اپنے فضل و کمال کی بدولت بادشاہ کے دل میں جگہ پائی تھی جیسے ملا فتح اللہ شیرازی 15 مسلمانوں اور راجہ ٹوڈرمل 16 ہندوؤں میں۔ یہ دونوں شخص اکبری دورمیں مذہب کے نہایت متعصب گنے جاتے تھے۔ باایں ہمہ ملا نے اپنے علوم عقلیہ و نقلیہ کے سبب اور راجہ نے حساب سیاق کی مہارت سے یا دانشمندی اورحسن تدبیر کی جہت سے دربارشاہی میں جو مرتبہ حاصل کیا وہ سب پرروشن و ہویدا ہے۔بہرحال جہاں کامیابی کے دوچار ناجائز طریقے پائے جاتے ہیں وہاں کوئی نہ کوئی جائزطریقہ بھی ضرور موجود ہوتا ہے اور جو کامیابی ان ناجائز طریقوں سے حاصل ہوتی ہے وہ اس کامیابی کے برابر کبھی پائیدار اور مستحکم نہیں ہوتی جو جائز طریقہ سے حاصل ہو سکتی ہے، ہم نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ جن درباروں میں مثلاً خوشامد کا بازار گرم تھا اورجہاں حاکم کی مرضی کے خلاف بولنا جرائم کبیرہ کے ارتکاب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا تھا، جب وہاں کوئی سچا اور آزادطبیعت کا آدمی پہنچا تو اگرچہ اس کو چند روز اپنی آزادطبیعت کی کسی قدر روک تھام کرنی پڑی لیکن آخر اس کی راستی اپنا رنگ جمائے بغیر نہ رہی، رفتہ رفتہ اسی کا قول معتبر ٹھہرا اور اسی کی صلاح نیک سمجھی گئی۔ان تمام شہادتوں سے ہم بآسانی یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ہندوستان کی اکثر قومیں جو روز بروز اقبال مند ہوتی جاتی ہیں اور مسلمانوں کی قوم بداقبالی کے بھنور اور ذلت کی دلدل سے کسی طرح نہیں نکلتی، اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اور لوگ اپنی حالت کو زمانے کے موافق بناتے جاتے ہیں لیکن مسلمان اپنی وضعداری کو ہاتھ سے نہیں دیتے۔اے ہندوستان کے مسلمانو! کیا تم ابھی اسی عالم میں ہو جس میں تمہارے آبا و اجداد زندگی بسر کر گئے ہیں اورکیا تم اسی کھیتی کے پروان چڑھنے کے منتظر ہو جس میں تمہارے بزرگوں نے تخم افشانی کی تھی؟ مدت ہوئی کہ وہ عالم گزر گیا اور وہ کھیتی دریا برد ہو گئی۔ ذراآنکھیں کھولو اور دیکھو کہ تم کون ہو؟ اورکہاں ہو؟ تمہاری گرہ میں جودام ہیں وہ بازار میں آج پھوٹی کوڑی کو نہیں چلتے۔ تمہاری دکان میں جو مال ہے اسے کوئی مفت بھی لینا نہیں چاہتا۔ تمہارے چراغ میں جو تیل تھا وہ جل لیا اور تمہاری کھیتی میں جو پانی تھا وہ سوکھ گیا۔ دیکھو! تمہاری ناؤ بودی ہے اور دریا دم بدم چڑھتا جاتا ہے۔ تمہارا قافلہ پیادہ ہے اور منزلیں کٹھن آتی جاتی ہیں۔اس تمہید سے ناظرین کو ضرور یہ خیال پیدا ہوگا کہ ہم آگے چل کر اپنی قوم کو انگریزی پڑھنے، میز کرسی لگانے، کوٹ پتلون پہننے اور چھری کانٹے سے کھانے کی ترغیب دیں گے، کیوں کہ ظاہرا ًزمانہ حال کا مقتضایہی معلوم ہوتا ہے۔ مگر ان کو یاد رہے کہ ہماری مراد اس تمہید سے یہ ہرگز نہیں ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ جس بری حالت میں ہیں اس سے نکلنے کی جو سیدھی راہ انہیں نظر آئے، اسی راہ کو اختیار کریں اور جس طرح ہو سکے اپنا قدم آگے بڑھائیں کیونکہ زمانہ بآواز بلند کہہ رہا ہے من استوی یوماہ فھو مغبون یعنی جس کے دودن ایک حالت پر گزریں وہ خسارہ میں رہا اور در و دیوار سے یہ صدا آ رہی ہے کہ۔ ع یا قدم آگے بڑھاؤ ورنہ لو راہ عدم۔دنیا میں آج کل ایک عام گھوڑ دوڑ کا تماشا ہور ہا ہے۔ ہرگروہ کے شہسوار جوق جوق اس میں آتے ہیں اور اپنے اپنے ہنر دکھاتے جاتے ہیں۔ کچھ ان میں سے گجردم آتے ہی برق خاطف کی طرح ایک آن واحد میں گزر گئے، کچھ ان سے پیچھے پہنچے، کچھ راہ میں ہیں مگر افتاں و خیزاں چلے جاتے ہیں۔ کتنوں نے اپنے گھوڑوں کی ابھی باگ اٹھائی ہے، کتنے چلنے کی تیاری کررہے ہیں لیکن بہتوں کو ابھی گھوڑدوڑ کی خبر بھی نہیں پہنچی، ان کے گھوڑے تھان پر بندھے ہوئے ہیں اور خود آرام سے پڑے سوتے ہیں۔ شاید وہ اس وقت بیدار ہوں گے جب گھوڑدوڑ کا وقت نکل جائےگا اور وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اے مسلمانو! ہم کوخوف ہے کہ وہ ناکام گروہ کہیں تمہاری ہی قوم نہ ہو! اور وہ ہاتھ جوحسرت سے ملے جائیں گے تمہارے ہی ہاتھ نہ ہوں۔اے مسلمانو! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ جوشے تم کو ابھرنے نہیں دیتی وہ کیا ہے؟ اور جس کے سبب تم جنبش نہیں کر سکتے وہ کون سی بندش ہے؟یاد رکھو وہ تمہاری بے ہودہ تقلید ہے جس نے تم کو مذہبی امور ہی میں مجبور اور بے اختیار نہیں کیا بلکہ تجارت میں، زراعت میں، علم و ہنر میں، حرفے اور پیشے میں، غرض ہر کام میں تمہاری عقلوں پر پردہ اور ہر راہ میں تمہارے پاؤں میں بیڑی ڈال رکھی ہے۔ اورتم کو اس پرند جانور کی مانند بے بس کر رکھا ہے جس کے پر کٹے ہوں اور آنکھیں سی ہوئی ہوں، نہ توم میں طاقت پرواز ہے، نہ نگاہ دوربیں۔ تقلید نے تم کو تمام دینی اور دنیوی ترقیوں سے فارغ البال کر رکھا ہے اور تمہارے کان میں یہ پھونک دیا ہے کہ جو کچھ کرنا تھا سو اگلے کر گئے۔ اب اس سے زیادہ کرنا غیر ممکن ہے۔ تمہارے نزدیک جس قطع کی کشتی طوفان نوح میں بنائی گئی تھی اس سے بہتر کوئی وضع انسان کے ذہن میں نہیں آ سکتی اور جو پیشہ آج سے ہزار برس پہلے تمہارے بزرگوں نے اختیار کیا تھا اس کے سوا کسی حیلے سے تم روٹی نہیں کما سکتے، تمہارے نزدیک تمام عقل انسانی پہلے طبقوں پرتقسیم ہو گئی اور انہوں نے تمہارے لئے کوئی موقع ایسا نہ چھوڑا جس میں تم کو اپنی انسانیت سے کچھ کام لینے کی ضرورت پڑے۔شیخ 17 نے قانون میں بدن انسان کی تشریح جو لکھ دی، سو لکھ دی اور محمدحسین دکنی برہان قاطع میں لغات فارسی کی تحقیق کر گیا سو کر گیا۔ اب کون ہے جو قانون سے کچھ بڑھ کر لکھ سکے یا برہان میں کوئی عیب نکال سکے؟ تم صرف انہیں لوگوں کی تقلید نہیں کرتے جن کے ساتھ تم کو حسن عقیدت ہے بلکہ طب میں جالینوس 18 کی، منطق میں ارسطو کی، ہندوستان کی رسموں میں ہندوؤں کی تقلید کو بھی اسی قدر ضروری جانتے ہو جس قدرمذہب میں امام اعظم 19 کی تقلید تمہار نزدیک واجب و لازم ہے۔ اگر کسی کو اس بات میں تامل ہو تو نکاح بیوگان کے معاملہ میں غور کرے اور دیکھے کہ اس کا مجوز کون ہے؟ اور مانع کون؟ اور ہندوستان کے عام مسلمانوں نے مجوز کے حکم کی تعمیل کی ہے یا مانع کا کہنا مانا ہے۔اسی تقلید کی بدولت تم میں ایک اور مرض پیدا ہو گیا ہے جس نے تمہاری رہی سہی ہمت خاک میں ملادی ہے اور تم کو بالکل اپاہج کر دیا ہے۔ پوچھو وہ کیا ہے؟ وہ خانہ خراب وضعداری ہے، جس کی ہدایت سے تم ترقی کرنے والوں کومتلون مزاج سمجھتے ہو اور ڈھورڈنگروں کی طرح سدا ایک حالت پر رہنے کو کمال نفس انسانی قرار دیتے ہو۔ ہندوستان کے وضعداروں کی یہ رائے ہے کہ آدمی اپنی زندگی میں جو طریقہ یا جو حالت اختیار کرے اس کو آخرعمر تک ترک نہیں کرنا چاہئے۔ جوانی میں اگر داڑھی چڑھانے کی عادت ہو جائے تو سن شیخوخت تک اس وضع کو نباہنا ضروری ہے اور بچپن میں اگر کامدار ٹوپی پہننے کالپکا پڑجائے تو بڑھاپے کے جھریائے ہوئے چہرے کوبھی اس سے محروم نہیں رکھنا چاہئے۔چنانچہ معتبرراویوں سے سنا گیا ہے کہ دو بزرگوار نجف خانی جن کا سن شریف ساٹھ پینسٹھ سے متجاوز ہو گیا تھا اور نہایت متقی اور متورع آدمی تھے ہرجمعہ کو شاہد عبدالعزیز صاحب 20 کے درس میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ شاہ صاحب بھی ان کی کمال تعظیم کرتے تھے۔ باایں ہمہ تقدس دونوں حضرات داڑھی گھٹواتے تھے۔ بعض منہ پھٹ آدمیوں نے جوان پراعتراض کیا تویہ فرمایا کہ ہم خود اس حرکت سے منفعل ہیں مگر کیا کریں جو وضع قدیم سے چلی آتی ہے اس کے خلاف کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اسی طرح ایک شریفوں کی بستی میں ایک صاحب سن رسیدہ بڑے نمازی اور پرہیزگار تھے مگرعشاء کی نماز کبھی نہ پڑھتے تھے۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو فرمایا کہ بچپن میں تو اس سبب سے نہ پڑھی کہ کھانا کھاتے ہی شام سے سو رہے تھے۔ جوانی میں لہوولعب مانع رہا، اب بڑھاپے میں نئی بات کرتے ہوئے جی ہچکچاتا ہے۔خیر ہم اپنے قدما کی اس رائے پر اعتراض نہیں کرتے کیوں اس وقت زمانے کا متقضایہی تھا۔ سلطنت مغلیہ پرزوال آ چکا تھا، ترقی کی راہیں فتنہ وفساد کے سبب چاروں طرف سے مسدود تھیں۔ طبیعتوں پر مایوسی اور افسردگی چھائی ہوئی تھی، ایسے وقت میں تنزل کے جس قدر آثار مسلمانوں میں پائے جاتے، تھوڑے تھے۔ مگر ہم کو اپنے ہم عصروں کے حال پربے اختیار رونا آتا ہے جو اس امن اور آزادی کے زمانے میں بھی وضعداری کے حصار سے باہرنہیں نکلتے اور متقضائے وقت کو نہیں دیکھتے۔ نہ آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں اورنہ اوروں کی ترقی کو پسند کرتے ہیں۔ جو شخص اپنی پست حالت سے نکل کر اچھی حالت میں آنا چاہتا ہے اس کونرامتلون مزاج یا بے استقلال ہی نہیں بتاتے بلکہ اس پر انواع واقسام کی رائیں لگاتے ہیں جن میں سب سے ہلکا الحاد کا فتویٰ ہے۔شائستہ ملکوں میں آج کل ترقی کی یہ صورت ہے کہ جوشخص پانچ سات برس کہیں پردیس میں رہ آتا ہے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ وطن میں پہنچ کر اسی وقت وہاں کی عام مجلسوں میں شریک ہو جائے، جتنے دنوں وہ باہر رہتا ہے اتنی مدت میں وہاں اس قدر ترقی ہو جاتی ہے کہ یہ وہاں پہنچ کر ایک دوسرا عالم دیکھتا ہے اور اپنے تئیں اس شعر کا مصداق پاتا ہے،عبارت کو تہ و دل تنگ و خاصان ملک زیباچہ داند مرد صحرائی طریق کار سازی راسچ یہ ہے کہ آیۃ کل یوم ھوفی شان کے معنی ایسے ہی ملکوں میں جاکر کھلتے ہیں اور انسان کا اشرف المخلوقات اورخلیفۃ الرحمن ہونا وہیں جا کر ثابت ہوتا ہے نہ کہ ہندوستان میں اور خاص کر ہمارے بھائی مسلمانوں میں، جن کی حالت کو دیکھ کر خداتعالیٰ کی قدرت اور اس کی فیاضی ایک خاص حد تک محدود معلوم ہوتی ہے اور اس آیت کے معنی صرف اعتقاد اًتسلیم کرنے پڑتے ہیں کہ 21 ولقد کرمنا بنی آدم و حملنھم فی البر والبحر ورزقنھم من الطیبات و فضلنھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا۔بار خدایا! ہماری قوم کو تقلید بے جا اور وضعداری بے سروپا سے نجات دے اور ان کو دینی ودنیوی ترقیات پر آمادہ کر۔ ان کا ادب ان کو قدماء سے آگے نہیں بڑھنے دیتا اور ان کی وضعداری پستی سے بلندی کی طرف نہیں جانے دیتی۔ کاش یہ بے ادب متلون مزاج ہی بن کرقدم آگے بڑھائیں اور جوہر قابل کی قدر پہچانیں جو تونے بنی انسان کے تمام اگلے اور پچھلے طبقوں کو یکساں عنات کیا ہے، سر روحانیاں داری بلے خود را نہ دیدستیبخواب خود در آتا قبلہ روحانیاں بینی

حاشیے(۱) محی الدین ابن عربی ملقب بہ شیخ اکبر، فتوحات مکیہ و فصوص کے مصنف بہت سے علوم بالخصوص تصوف اور فلسفہ کے زبردست عالم، اندلس کے شہرمرسیہ میں ۱۰ رمضان ۵۶۰ھ کو پیدا ہوئے۔ کثیرالتصانیف آزاد، نڈر اورنہایت صاف بیان شخ تھے۔ آپ نے ۶۳۸ھ میں بمقام دمشق رحلت کی اورمیدان قاسیون میں دفن ہوئے۔(۲) انوری فارسی زبان کااعلیٰ درجہ کا شاعر، بڑاحکیم اور فلسفی تھا۔ اہل سخن اسے پیمبرسخن مانتے ہیں۔ آپ کو نجوم کا بھی دعوی تھا جس کی بدولت بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ سلطان سنجر کے دربار سے بھاگ کر بلخ چلا گیا۔ بلخ والوں سے ناراض ہوکر بلخ اور اہل بلخ کو ہجومیں ایک قصیدہ لکھا۔ اس پر لوگوں نے ناراض ہو کر ۵۸۲ھ میں قتل کر ڈالا۔(۳) اس فقرے میں مشہور و معروف رباعی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،درشعر سہ کس پیمبرانندہرچند کہ لا نبی بعدیابیات قصیدہ وغزل رافردوسی و انوری و سعدی(۴) سلطان سنجر۔ فارس کا نہایت مشہور اورعلم دوست بادشاہ تھا۔ ۱۰۹۴ء میں تخت پر بیٹھا۔ ۱۱۵۳ء میں ترکمانوں پر حملہ کیا۔ وہاں گرفتار ہو گیا۔ چار سال تک ان کی قیدمیں رہا۔ اس کی غیرحاضری میں اس کی بیوی سلطانہ خاتون نہایت قابلیت اور خوبی کے ساتھ حکومت کرتی رہی۔ سنجر آخر قید سے فرار ہوا۔ اور تھوڑے ہی دن حکومت کرنے پایا تھا کہ ۱۱۵۷ء میں پیغام اجل آ گیا۔(۵) شیخ ابوالفضل نہایت فاضل، بڑا ادیب اور شہنشاہ اکبر کا وزیراعظم تھا۔ آئین اکبری اور اکبرنامہ اس کی مشہور تصانیف ہیں۔ فیضی کا بھائی اور شیخ مبارک کا بیٹا تھا۔ ۹۵۷ھ میں پیدا ہوا اور صرف ۲۳ سال کی عمر میں وزیراعظم ہو گیا۔ جہانگیر کے اشارے سے نرسنگھ دیو نے ۱۰۱۱ھ میں قتل کیا۔(۶) نرسنگھ دیوبندیلہ دکن کا ایک لٹیرا اور قزاق تھا۔ جب بادشاہ نے ابوالفضل کو دکن کی مہم پربھیجا تو اسی نرسنگھ دیو نے شہزادہ سلیم کی تحریک سے ابوالفضل پر اس مہم کی واپسی پر اجین کے قریب حملہ کیا۔ ابوالفضل کمال شجاعت و بہادری سے لڑا لیکن مارا گیا۔(۷) شہاب الدین غوری۔ افغانستان کے پہاڑی علاقوں کا حاکم، ہندوستان میں سلطنت اسلامیہ کی بنیاد ڈالنے والا اور نہایت اولوالعزم اور باہمت بادشاہ تھا۔ اس نے ۱۲۰۲ تک حکومت کی ہے۔ ہندوستان پر پہلے حملے میں پر تھی راج والئی دہلی و اجمیر سے شکست کھا کر واپس لوٹ گیا مگر تیسرے سال ۱۱۵۳ میں پرتھی راج کو تھانیسر کے مقام پر بڑی سخت شکست دی جس میں تقریباً ایک سو پچاس راجہ پرتھی راج کی امداد کو اپنی اپنی فوجیں لے کر آئے تھے۔ اس فتح سے تمام شمالی ہندوستان شہاب الدین کے قبضہ میں آ گیا۔ واپسی پر شہاب الدین اپنے غلام قطب الدین نامی کو ہندوستان کا بادشاہ کرکے چھوڑ گیا جس کی اولاد نے مدتوں یہاں سلطنت کی ہے۔(۸) یعنی میں تمہیں کرنے والا نہیں دیکھتا۔(۹) شیخین سے مراد حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ہیں۔(۱۰) عمر فاروق، صدیق اکبر کے جانشیں، اسلام کے دوسرے خلیفہ۔ آپ کے عہد مبارک میں تمام عراق، عرب، شام، ایران اور مصر کے ممالک مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اور اسلام کو وہ شوکت حاصل ہوئی جس کی نظیر مستقبل میں پھر نہ مل سکی۔ ساڑھے دس سال خلافت کرنے کے بعد صبح کی نماز پڑھتے ہوئے ایک غلام کے ہاتھ سے شہید ہوئے۔ آپ نے ۱۳ھ (۶۳۴ء) سے ۲۳ھ ۶۴۲ء تک خلافت کی۔ آپ کا بے نظیرعدل، انتہا درجے کی سادگی، خوش انتظامی مشہور و معروف ہے۔(۱۱) عثمان ذی النورین اسلام کے تیسرے خلیفہ ہیں۔ فارس کے اکثر شہر شاہ روم کا علاقہ اور شمالی افریقہ کے بعض ممالک آپ کے عہدمیں اسلامی حکومت میں شامل ہوئے۔ نہایت رحم دل، رقیق القلب اور منکسرالمزاج تھے۔ ۱۲ سال خلافت کرکے بعد۵ ۷ سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ آپ نے ۲۴ھ (۶۴۴ء سے ۳۵ھ ۶۵۶ء تک خلافت کی ہے۔)(۱۲) مروان ابن الحکم۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاحقیقی عم زاد بھائی اور بڑا عیارشخص تھا۔ اسی کی شرارتیں اور چالاکیاں حضرت خلیفہ ثالثؓ کی پرالم شہاد ت کا باعث ہوئیں۔ بنی امیہ کی حکومت قائم ہونے پر یہ اپنی ہوشیاری سے معاویہ ثانی کی وفات کے بعد ۶۴ھ ۶۸۴ء میں تمام دنیائے اسلام کا بادشاہ ہو گیا۔ مگرصرف ۲۹۸ دن حکومت کرنے پایا تھا کہ اس کی بیوی زینب نے ۲ رمضان ۶۵ھ مطابق ۱۲ اپریل ۶۸۵ء کو اسے زہر دے کر مار ڈالا۔(۱۳) مسلم۔ امام مسلم بن حجاج نیشاپوری بہت بڑے محدث اور امام المحدثین حضرت امام بخاری کے خاص اور ممتاز شاگردوں میں سے تھے۔ صحاح ستہ کی کتابوں میں صحیح بخاری کے بعد آپ کی کتاب کا درجہ ہے جو عام طور پرصحیح مسلم کے نام سے مشہور ہے۔ ۲۰۴ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۶۱ھ میں انتقال فرمایا۔(۱۴) ابوہریرہ حضور صلعم کے بڑے پایہ کے صحابیوں میں سے ہیں۔ ۵۷ھ میں وفات پائی۔۔(۱۵) بطلیموس مصر کا ایک مشہور مہندس، علم نجوم و ہندسہ کا ماہر، پہلا جغرافیہ داں اور ہیئت کی مشہور کتاب ’’محبطی‘‘ کا مصنف ہے۔ اسی نے پہلے پہل کرہ ارض کا نقشہ بنایا اور نظام شمسی کی تحقیقات کی۔ ۸۰ برس کی عمر میں ۲۴۷ قبل مسیح وفات پائی۔(۱۶) ارسطو معروف بہ ارسطاطالیس۔ حکمائے یونان کا سرگروہ، شہنشاہ سکندر اعظم کا استاد اور افلاطون کا شاگرد تھا۔ صرف، نحو، ادب، معانی، علم الاخلاق، سیاست مدن، طبیعات، الہیات اور ریاضیات کا زبردست عالم تھا۔ اہل علم میں ’’معلم اول‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ۲۸۴ء ق م پیدا ہوا اور ۳۱۲ ق م وفات پائی۔(۱۷) ملا فتح اللہ شیرازی دربار اکبری کا نہایت گراں پایہ عالم اور مقتدر رئیس تھا۔ باوجود تقدس مذہبی کے علوم عقلیہ مثلاً ہیئت وہندسہ، نجوم، رمل، حساب، طلسمات، نیر نجات خوب جانتا تھا۔ خصوصاً علم ہیئت میں نہایت کامل تھا اور علوم عربیہ، حدیث، تفسیر اور علم کلام سے بھی خوب واقف تھا۔ کشمیر میں ۵۹۷ھ میں وفات پائی۔(۱۸) ٹوڈرمل عہد اکبر کا بہت بڑا محاسب اور قانون مالگزاری کامدون، اکبر اس سے بہت خوش تھا۔ اوراس کو اپنے بہترین رفیقوں میں سے سمجھتا تھا۔ ۱۵۸۹ء میں وفات پائی۔(۱۹) شیخ الرئیس بوعلی حسین علی بن سینا۔ حکمائے اسلام میں بڑا حاذق طبیب اور بے نظیر فاضل گزرا ہے۔ صرف ونحو، زبان دانی، طب، ہندسہ وہیئت، منطق اور فلسفہ وغیرہ تمام مروجہ وقت علوم و فنون میں صرف سولہ سال کی عمر میں وہ کمال پیدا کیاکہ شیخ (پروفیسر یااستاد) کے لقب سے پکارا جانے لگا۔ ’’قانون‘‘اس کی طبی تصانیف میں ایسی جامع کتا ب ہے جس کی نظیر نہیں۔ اس کے علاہ مختلف علوم و فنون پر اس نے اور بھی بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ ۳ صفر ۲۷۵ھ کو پیدا ہوا اور ۵۳ سال کی عمر میں درد قولنج سے ۴۲۸ھ میں وفات پائی۔(۲۰) جالینوس۔ یونان کامشہور حکیم اوراعلیٰ درجہ کا طبیب تھا۔ ۱۳۰ تا ۲۰۱ق۔ م(۲۱) امام اعظم۔ نعمان ثابت نام۔ ابوحنیفہ کنیت اورامام اعظم لقب ہے۔ ۸۰ھ میں پیدا ہوئے۔ اہل سنت والجماعت کے امام، بہت بڑے فقیہ، مجتہد اورمحقق شریعت تھے۔ خلیفہ وقت نے باوجود اصرار کے عہدہ قضا قبول نہ کرنے کی وجہ سے قیدکردیاتھا اوروہیں ۱۵۰ھ میں خفیہ طورپر زہر دے کر اس آفتاب علم کا خاتمہ کردیاگیا۔(۲۲) شاہ عبدالعزیز۔ ہندوستان کے قابل فخر اور مایہ ناز محدث حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے نامور فرزنداور نہات قابل اورعالم باعمل بزرگ تھے۔ تفسیر فتح العزیز، تحفہ اثناعشریہ اورسرالشہادتین آپ کی مشہور کتابیں ہیں۔ ۱۱۵۹ھ ۱۷۴۶ء میں پیدا ہوئے اور ۱۲۳۹ھ ۱۸۲۴ء میں انتقال فرمایا۔(۲۳) یہ آیت پندرھویں پارہ اور سورہ بنی اسرائیل کے ساتویں رکوع کے آخر میں ہے ’’اورالبتہ ہم نے بزرگی دی انسان کواور اس کو بحروبرپرحاکم بنایا اور تمام پاکیزہ اشیا میں اس کے لئے سامان معاش رکھے اور جتنی چیزیں ہم نے پیدا کی ہیں ان میں سے اکثر پرانسان کوفضیلت دی۔‘‘


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.