سن فصل گل خوشی ہو گلشن میں آئیاں ہیں
Appearance
سن فصل گل خوشی ہو گلشن میں آئیاں ہیں
کیا بلبلوں نے دیکھو دھومیں مچائیاں ہیں
بیمار ہو زمیں سے اٹھتے نہیں عصا بن
نرگس کو تم نے شاید آنکھیں دکھائیاں ہیں
دیکھ اس کو آئنہ بھی حیران ہو گیا ہے
چہرے پہ جان تیرے ایسی صفائیاں ہیں
خورشید اس کو کہئے تو جان ہے وہ پیلا
گر مہ کہوں ترا منہ تو اس پہ جھائیاں ہیں
یوں گرم یار ہونا پھر بات بھی نہ کہنا
کیا بے مروتی ہے کیا بے وفائیاں ہیں
جھمکی دکھا جھجھک کر دل لے کے بھاگ جانا
کیا اچپلائیاں ہیں کیا چنچلائیاں ہیں
قسمت میں کیا ہے دیکھیں جیتے بچیں کہ مر جائیں
قاتل سے اب تو ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں
دل عاشقوں کا لے کر پھر یار نہیں یہ دلبر
ان بے مروتوں کی کیا آشنائیاں ہیں
پھر مہرباں ہوا ہے تاباںؔ مرا ستم گر
باتیں تری کسی نے شاید سنائیاں ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |