صفحہ 2 - حدود ارڈنینس
” میرا نام احسان ہے۔اور آپ رفعت سے بات کر چکے ہیں“ ۔
سعدیہ نے مائک میں کہا۔” ہیلو احسان اور رفعت میں سعدیہ ہوں“ ۔
” سعدیہ میری بہن ہے“۔ اس سے پہلے کہ سعدیہ دوسری باتوں میں نکل جائے میں نے جلدی سےگفتگومیں داخل ہو کر کہا۔
” آپ لوگ کیوں ہم سے بات کرنے کے خواہش مند ہیں“ ۔
احسان نے کہا۔” رفعت کا نام رفعت آفریدی ہے“
” ھمم” سعدیہ نے کہا۔ رفعت پختون کی بیٹی ہے اور آپ نہیں۔
” جی ، میں مہاجر ہوں“ ۔ احسان بولا۔
” 1999میں میں اور رفعت کراچی میں ملےاور ہم دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گۓ۔ ہم دونوں بالغ تھےاور ہم کومعلوم تھا کہ رفعت کا خاندان یہ کبھی بھی گوارہ نہیں کرے گا کہ وہ مجھ سے شادی کرے۔ہم دونوں نے بھاگ جانے کا فیصلہ کیا۔ اور غائب ہوگئے- پختون لوگوں نے اس کے احتجاج میں کراچی میں ہڑتال کردی۔ اس کے نتیجہ میں فساد ہوا۔ گولیاں چلیں۔اور دو آدمی مارے گۓ اور دس زخمی ہوۓ“ ۔
” رفعت نے کہا“۔ میرے والدین اور رشتہ داروں نےاحسان پر عدالت میں مقدمہ کر دیا اور یہ الزام لگایاکہ میں شادی شدہ ہوں اور احسان مجھے زبردستی بھگا کر لے گۓ ہیں۔ پولیس نے احسان کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا“ ۔ رفعت سانس لینے کے لۓ رُ کی“۔
” جب احسان کو پولیس نے عدالت میں پیش کیا۔ میرے رشتہ دار بھی عدالت میں موجود تھے۔ان میں سے کچھ نےاحسان پرگولیاں چلائیں۔ احسان زخمی ہوگۓ“ ۔
جج نے ہم سب کی شہادت سنی اور احسان کو بری کردیا“ ۔
” مگر ہمیں پتہ تھا کہ اگر ہم پاکستان میں رہے تو قتل کردیے جائیں گے۔ اس لیے ہم اپنا وطن چھوڑ کر یہاں آگۓ“ ۔ ” سکینہ نے سوچا کہ آپ کو یہ جان کر یہ پتہ چلےگا کہ مسئلہ صرف پختونوں کے لوگوں میں محدود نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ پاکستان کے حدود آرڈنینس کے استعمال کا ہے“۔