صفحہ 2 - سکینہ
” وہ میرے پاس ایک سال سے تھوڑا سا کم عرصہ رہی“۔
” کیا۔گل نے تم کو مجھ سے بات کرنے کوکہاہے؟“
” میرا نام سکینہ ہے۔ میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔ اسنے پھر سے دُ ہرایا۔
سعدیہ نے مجھ سےفرنچ زبان میں کہا۔” بھیا ، آپ مت پوچھیں اس کو بتانےدیں کہ یہ آپ سے کیوں بات کرنی چاہتی ہے؟“
سکینہ ہنسی۔ وہ ایسے ہنسی جیسے کسی نے ستار پرہاتھ پھرا ہو۔ مجھےایسا لگا کہ وہ فرنچ جانتی ہے۔
” گل جب میرے پاس رہنے آئ تو وہ ایک خاموش اورکھوئ کھوئ سی دس سالہ تھی۔ ایک دن وہ برآمدہ میں کھڑی تھی۔ میں نےاسے نام لے کر پکارا۔ جب اس نے موڑ کر میری طرف نہ دیکھا تو میں نے بلند آواز میں پکارا۔ تب بھی اس نے جواب نہ دیا“۔
” تمہارے خاندان میں آنے سے پہلے وہ کہاں تھی؟“ میں نے سوال کیا؟
” مجھے نہیں پتہ نا۔ بس یہ پتہ ہے کہ ہم وادی میں ہیں اور وہ پہاڑوں سے آئی تھی“۔
” کوہا ٹ میں غر یب اپنی لڑکیوں کو ملک یا خان کے پاس کیوں رکھتے ہیں؟“ مجھے اس رواج کے متعلق بتاؤ۔ ” مجھے نہیں پتہ نا۔ بڑوں کو پتہ ہے۔ اور یہ صرف کوہاٹ میں ہی نہیں بلکہ سارے پختونخواہ اور افغانستان میں ایسا رواج ہے“۔
میں نے اسے کُریدا“۔ تمہارا کیا خیال ہے ؟“
میرا خیال ہے کہ اس سےغریبوں کو اپنے بچوں کوپالنے میں مدد ملتی ہے۔اور بچوں کوگھر کے کام کاج کی تربیت بھی ملتی ہے“۔
میں نے کہا“۔ کیا ان بچوں کونوکروں کی طرح رکھا جاتاہے؟“
” ہم عزت دار ہیں اورہماراگھرانا شریف گھرانا ہے۔ ہمارے خاندان میں اُنکواپنے بچوں کی طرح رکھا جاتا ہے۔یہاں تک کہ گل میرے کمرے میں سوتی تھی۔ وہ اکیلے سونے سے ڈرتی تھی”۔