Jump to content

صفحہ 3 - سکینہ

From Wikisource


” مجھےگل کے متلعق اور بتاؤ“۔

” میری کوئ چھوٹی بہن نہیں۔ وہ میری چھوٹی بہن کی طرح تھی۔ میں نےاس کو پہلا سپارہ پڑھایا۔گنتی اوراردو کا پہلا قاعدہ پڑھایا۔انگریزی کے لفظ سکھانے کی کوشش کی۔ایک دن پشاور والی آنٹی آئیں اور وہ اُن کے ساتھ چلی گئ“۔

” اپنی مرضی سے؟“

” ہا ں اپنی مرضی“۔ ـسکینہ نے کہا۔

مجھ یقین نہیں آیا مگر میں خاموش رہا۔ کیا بڑے دس سال کی بچی کواُس کی مرضی دیں گے؟

” اس کے بعد میں نے گل کے بارے دوسال تک کچھ نہ سنا۔ایک دن امی نے بتایا کہ گل اب شادی شدہ ہے“۔ سکینہ نے کہا۔

” تم نے کیا کہا ، شادی شدہ“۔ میں نےحیران ہوکرکہا ؟

” شادی شدہ“۔ سعدیہ کرسی سے اُچھل کر کھڑی ہوگئی اور اسکا سردائیں بائیں ہل رہا تھا۔جسے ایک مسخرہ اپنا سر ہلاتا ہے۔

سکینہ نے کہا۔ ” یہ اسی عجیب بات تو نہیں ہے۔ یہ تو ہماری قوم کے غریبوں کی مجبوری ہے لڑکیوں کی شادی سے لڑکی کے ماں باپ کو پیسے ملتے ہیں۔گل کے ابو نے پیسوں کے لۓ اس کی شادی ایک چالیس سال کے آدمی سے کردی“۔ سعدیہ غصہ سے بولی”۔” یہ تو ظلم ہے کیا ایک ماں، باپ اور بھائ اپنی بیٹی اور بہن پر یہ زیادتی کرسکتے ہیں۔ اس عمر میں تو لڑکی جسمانی اور دماغی طور پر تیارنہیں ہوتی“۔

میں نے سعدیہ کو ر وکا۔ ” اس میں سکینہ کا قصور نہیں ہے“۔

سعدیہ نے سکینہ سے معافی مانگی۔

سکینہ کہا۔” میں تمہارے غصہ کو قبول کرتی ہوں۔ میں نےاس کو بہن کہا تھا اورگل نےمجھ کو باجی۔ مجھے بھی اتنا ہی غصہ ہے جتنا تم کو ہے۔ جب میں نے سنا کہ گل بچے کی پیدائش کے دوران مرگئی تومیں اس کے غم میں دو دن تک کھانا نہیں کھا سکی اور نا ہی سوسکی“۔