Jump to content

صفحہ 7 - سکینہ

From Wikisource

” اس نےہمشہ سے قبول کیے ہوۓ ایک غلط اصول کوماننے سے انکار کیا“۔ماں نے کہا۔

” تم اسکا نام جاننا چاہو گے؟“۔

” ہاں“۔میں نے کہا۔

” اسکا نام روزا لوئس پارک ہے“

” امریکہ میں کالےلوگوں کے ساتھ زیادتی ہوتی تھی۔ 1823 میں ورجینا اسٹیٹ نے ایک قانون پاس کیا جسکا نام ’ جم کرو‘ یا ’ بلیک کوڈ ‘ تھا۔ اس قانون نے کالوں اورگوروں کوبالکل الگ کردیا۔ ہرچیز علیحدہ ، پانی پینے کا فوارہ علیحدہ ، علیحدہ ریسٹورانٹ، بسوں کی سیٹیں علیحدہ ، علیحدہ پارک، اس کول علیحدہ ، علیحدہ رہنے کی جگہیں۔ غرض ہرقسم کی ذیادتی ہوئ“۔

1955 میں ’ روزا ‘ ا یک بس میں سفر کررہی تھی۔ وہ اپنی مقررہ سیٹ پر بیٹھی تھی۔ دوسری سب سیٹیں استمعال میں تھیں۔ایک گوراشخص بس میں داخل ہوا۔ بس کے ڈرائیور نے روزا سے کہا کہ تم اپنی سیٹ خالی کرو۔ روزا نے انکار کردیا۔ روزا کوگرفتار کرلیا گیا۔دوسرے دن ڈاکٹر مارٹن لوتھر کینگ اور تمام شہر کے کالوں نےشہر کی بسوں کواستمعال کرنا بند کردیا۔382 دن بعد کورٹ میں روزا مقدمہ جیت گئی۔اس سانحہ اوراس طرح کے دوسر ے سانحوں نے حقوق شہریت کی ابتدا کی اور 1963میں سِول رائٹ ایکٹ لکھا گیا” ۔ اب امریکی شہری حقوق کے قانون ، نسل، ذات اور مذہب کی بنیاد پر بنانے کی اجازت نہیں ہے"۔ قانون کی نظر میں تمام امریکی ایک ہیں۔ پاکستان کو اپنی ’ روزا ‘ چاہیے جس نے23 سال عمر اپنی بس سیٹ ایک گورے شخص کو دینے سے انکار کردیا۔اس سے ایک انقلاب شروع ہوا اور1965 میں قانون میں تبدیلی ہوئ اور تمام کالوں کو بس میں کسی بھی سیٹ پر بیٹھنے کا حق ملا۔

پاکستان کو اپنی’ سوو‘ چاہیے۔ جوجمہوریت کے لۓ18 سال سے برما کی ملیٹری حکومت سے لڑرہی ہے۔ ’ ڈاو اینگ سان سووکی‘ نے 7 سال برمی جیل میں گزارے۔