Jump to content

عاشقوں کو اے فلک دیوے گا تو آزار کیا

From Wikisource
عاشقوں کو اے فلک دیوے گا تو آزار کیا
by عیش دہلوی
303264عاشقوں کو اے فلک دیوے گا تو آزار کیاعیش دہلوی

عاشقوں کو اے فلک دیوے گا تو آزار کیا
دشمن جاں ان کا تھوڑا ہے دل بیمار کیا

رشک آوے کیوں نہ مجھ کو دیکھنا اس کی طرف
ٹکٹکی باندھے ہوئے ہے روزن دیوار کیا

آہ نے تو خیمۂ گردوں کو پھونکا دیکھیں اب
رنگ لاتے ہیں ہمارے دیدۂ خوں بار کیا

مرغ دل کے واسطے اے ہم صفیرو کم ہے کیوں
کچھ قضا کے تیر سے تیر نگاہ یار کیا

چل کے مے خانے ہی میں اب دل کو بہلاؤ ذرا
عیشؔ یاں بیٹھے ہوئے کرتے ہو تم بیگار کیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.