عیش سب خوش آتے ہیں جب تلک جوانی ہے
Appearance
عیش سب خوش آتے ہیں جب تلک جوانی ہے
مردہ دل وہ ہوتا ہے جو کہ شیح فانی ہے
جب تلک رہے جیتا چاہئے ہنسے بولے
آدمی کو چپ رہنا موت کی نشانی ہے
جو کہ تیرا عاشق ہے اس کا اے گل رعنا
رنگ زعفرانی ہے اشک ارغوانی ہے
آہ کی نہیں طاقت تاب نہیں ہے نالے کی
ہجر میں ترے ظالم کیا ہی ناتوانی ہے
چار دن کی عشرت پر دل لگا نہ دنیا سے
کہتے ہیں کہ جنت میں عیش جاودانی ہے
گل رخاں کا آب و رنگ دیکھنے سے میرے ہے
حسن کی گلستاں کی مجھ کو باغبانی ہے
دل سے کیوں نہیں چاہوں یار کو کہ اے تاباںؔ
دل ربا ہے پیارا ہے جیوڑا ہے جانی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |