غم میں روتا ہوں ترے صبح کہیں شام کہیں
Appearance
غم میں روتا ہوں ترے صبح کہیں شام کہیں
چاہنے والے کو ہوتا بھی ہے آرام کہیں
وصل ہو وصل الٰہی کہ مجھے تاب نہیں
دور ہوں دور مرے ہجر کے ایام کہیں
لگ رہی ہیں ترے عاشق کی جو آنکھیں چھت سے
تج کو دیکھا تھا مگر ان نے لب بام کہیں
عاشقوں کے بھی لڑانے کی تجھے کیا ڈھب ہے
چشم بازی ہے کہیں بوسہ و پیغام کہیں
یمنی کی سی طرح لخت جگر پر کھودوں
مج کو معلوم اگر ہووے ترا نام کہیں
ہجر میں اس بت کافر کے تڑپتے ہیں پڑے
اہل زنار کہیں صاحب اسلام کہیں
آرزو ہے مرے تاباںؔ کو بھی اب اے قاتل
کہ بر آئے ترے ہاتھوں سے مرا کام کہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |