غیر کے ہاتھ میں اس شوخ کا دامان ہے آج
Appearance
غیر کے ہاتھ میں اس شوخ کا دامان ہے آج
میں ہوں اور ہاتھ مرا اور یہ گریبان ہے آج
لٹپٹی چال کھلے بال خماری انکھیاں
میں تصدق ہوں مری جان یہ کیا آن ہے آج
کب تلک رہیے ترے ہجر میں پابند لباس
کیجیے ترک تعلق ہی یہ ارمان ہے آج
آئنے کو تری صورت سے نہ ہو کیوں کر حیرت
در و دیوار تجھے دیکھ کے حیران ہے آج
آشیاں باغ میں آباد تھا کل بلبل کا
ہائے تاباںؔ یہ سبب کیا ہے کہ ویران ہے آج
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |