Jump to content

فسانہء مبتلا/35

From Wikisource
296855فسانہء مبتلا1885ڈپٹی نذیر احمد

مبتلا: جس چیز کے جواز کے لیے نص قرآنی موجود ہے۔ اس سے آپ کی مخالفت کا سبب؟

عارف: بات یہ ہے کہ شارع نے مردوں اور عورتوں کی معاشرت کے قاعدے ٹھہرا دیئے ہیں۔ نکاح اور مہر اور نفقہ اور طلاق اور خلع اور لعان اور اظہار اور رجعت اور رضاع وغیرہ جتنے معاملات ہیں سب کے واسطے احکام ہیں۔ اگر ان احکام کی پوری پوری تعمیل ہو تو کسی قوم اور کسی مذہب کے زن و شوہر میں اس سے بہتر معاشرت ہو نہیں سکتی مگر خرابی کیا آکر پڑی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے رسم اور مذہب دو چیزوں کو ملا کر اپنے طرز معاشرت کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا لیا ہے۔

مثلاً پردے سے چلو بلاشبہ اسلام کا حکم ہے کہ بیبیاں پردہ کریں اور اس میں شک نہیں کہ ایک پردے سے ہزار ہا مفسدوں کا انسداد ہوتا ہے۔

مگر جس سختی کے ساتھ ہم لوگوں نے پردے کو لازم کر لیا ہے افراط ہے، حد شرع سے متجاوز پردہ نہیں ہے مگر قید ہے اور قید جس قدر سخت اسی قدر ایذا دہ۔ نکاح ایک ایسا معاہدہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کی زندگی کی کامیابی اور ناکامیابی راحت اور تکلیف خوشی اور ناخوشی اسی پر موقوف ہے۔

معاہدہ تو ایسا مہتمم بالشان اور معاہدہ کرنے والے جن کو اس کا نباہ کرنا ہے اور جن پر اس معاہدے کا اثر مترتب ہو گا اس سے بے تعلق کیونکہ اکثر تو معاہدہ نکاح ایسی چھوٹی عمروں میں ہو جاتا ہے کہ فریقین میں سے کسی کو بھی اس کے نتائج کے سمجھنے کی اہلیت نہیں ہوتی اور اگر شاذو نادر ہوتی بھی ہے تو اظہار رائے کر کے بے شرم اور بے حیا اور بے غیرت اور منہ بولا کون کہلائے۔

پس معاہدہ نکاح تو کرتے ہیں مثلاً زید اور ہندہ اور ایجاب اور قبول کرتے ہیں ان کے ولی۔ کھلم کھلا پوری آزادی تو نکاح کے معاملہ میں مرد عورت کسی کو بھی نہیں۔ رہ گئے دبے دبائے اشارے کنائے وہ بھی مردوں کے لیے بدنمائی ہے اور عورتوں کے لیے فضیحت اور رسوائی۔ سب سے بڑا ظلم جو ہم نے اپنی عورتوں پر کر رکھا ہے یہ ہے کہ بیوہ کو دوسرا نکاح نہیں کرنے دیتے۔

ہزار ہا اللہ کی بندیاں ہیں کہ انہوں نے شوہر کا منہ تک نہیں دیکھا اور نصیبوں پر ایسے پتھر پڑے کہ رانڈ ہو گئیں۔ ہندوؤں کی طرح ستی ہو کر ایک بار کا جل مرنا ساری عمر کے جلاپے سے ہزار درجے بہتر تھا مگر حرام موت ستی کیوں کر ہوں۔ دنیا میں ناک کٹتی ہے۔ لہٰذا دوسرا نکاح کس طرح کریں۔ غرض جیتی ہیں تو لطفِ حیات نہیں اور مرتی ہیں تو اپنے اختیار کی بات نہیں تو اس کا مطلب نکلا کہ شارع تو حقوق میں سے رتی بھر چھوڑنا نہیں چاہتے۔

اب جو نسبت مرد اور عورت میں شارع کو رکھنی منظور تھی کیونکہ باقی رہ سکتی ہے اور وہ نسبت کیا تھی۔ اسی کے لیے میں تمہارے آگے قرآن کی دو آیتیں پڑھتا ہوں سورئہ بقر میں ہے۔ جیسے عورتوں کی ذمہ داریاں ہیں ویسی ہی راست معاملگی کے ساتھ برتاؤ کرو۔ پس اگر وہ تم کو بھلی نہ لگیں تو عجب نہیں تم کو ایک چیز بھلی نہ لگے اور خدا اس میں بہت سی بہتری کر دے۔

اب فرمائیے کہ تعدد نکاح جائز ہے یا ناجائز؟

مبتلا: میں تو مذہب کا کوئی بڑا محقق نہیں مگر اسی طرح جو رویں اگر زبردستی ہمارے گلے مڑھی جائیں گی تو جو حالت آپ نے بیوہ عورتوں کی بیان کی، اس سے بدتر ہماری ہو گی۔ بیوہ عورت کو تو خیر صبر کرنے کے لیے ایک بات بھی ہے کہ شوہر نہیں ہے نہ سہی لیکن یہ کیا مصیبت ہے کہ ایک عورت کو آنکھ بھر کر دیکھنے کو جی نہیں چاہتا، بات کرنے کی طرف طبیعت رغبت نہیں کرتی اور آپ کہتے ہیں کہ زبردستی اس کے ساتھ عاشقی کرو۔

اگر خدا کے یہاں ایسی ہی ہیکڑی ہے تو اس کو اختیار ہے دوزخ میں ڈالے یا جہنم میں جھونکے۔ بندگی و بے چارگی۔ مگر میں تو آپ سے صاف صاف کہتا ہوں کہ ایسی مجبورانہ عاشقی مجھ سے نہ ہوئی ہے نہ ہو گی۔

عارف: بلاشبہ تم مغلوب طبیعت ہو رہے ہو اور جب تک تمہاری یہ حالت رہے گی۔ حقیقت میں تم سے خلاف طبیعت کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی۔

مبتلا: اسی میں تو آپ سے مدد چاہتا تھا کہ طبیعت پر غالب آنے کی کوئی تدبیر بتائیے۔

عارف: جو تدبیر مجھ کو معلوم تھی وہی ایک تدبیر ہے میں نے تو اس کے بتانے میں دریغ نہیں کیا۔ پہر بھر تک تمہارے ساتھ اپنا مغز خالی کیا تو لاجواب ہو گئے اور چلتے چلتے تم سے کہتا گیا کہ تم ان باتوں کو فرصت سے سوچنا اور موجبات ترغیب کے پاس نہ جانا۔ تم یوں سمجھو کہ حسن پرستی مرض ہے۔ سوچنا دوا ہے اور موجبات ترغیب سے دور رہنا پرہیز، بھائی! مرض جسمانی بھی اگر مزمن ہوتا ہے تو اس کو جلد صحت نہیں ہوتی اور بعض صورتوں میں برسوں علاج اور ساری عمر کے لیے پرہیز کرنا پڑتا ہے۔

یہی حال ہے امراض روحانی کا جن کا دوسرا نام ہے بُری لت یا بد عادت۔ تمہارا علاج تمہارے ہی ہاتھ میں ہے کرو تو تم اور نہ کرو تو تم۔

مبتلا: آپ تو تعدد نکاح میں چند در چند طرح کے خدشات پیدا کرتے ہیں اور بزرگانِ دین میں کوئی بھی اس سے خالی نہیں۔

عارف: جب ایک بات کی صراحت ہم کتاب اللہ میں پاتے ہیں تو ہم کو کسی بزرگ کے قول و فعل پر نظر کرنے کی ضرورت نہیں، ایک اور دوسرے یہ معاملات ہیں شخصی۔

جب تک کسی کی طبیعت، کیفیت، حالت اور ضرورت کا کچھ حال معلوم نہ ہو ہم بُری یا بھلی کوئی رائے ظاہر نہیں کر سکتے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ اپنے لیے اس کی آزادی کو عمل میں لاتے تھے وہ عورتوں کی آزادی میں بھی مضائقہ نہیں کرتے تھے۔ ہماری طرح ان کا معاہدئہ نکاح مرنے بھرنے کا معاہدہ نہ تھا۔ ذرا سی عدم موافقت ہوئی۔ مرد نے طلاق دے دی یا عورت نے خلع کر لیا۔

تھوڑے تھوڑے مہر ہوتے ہیں ان کو معاہدہ نکاح کا فسخ کر دینا ایک بات تھی۔ نہ طلاق کا عیب نہ دوسرے نکاح کی عار۔ تو ان کی آزادی حق بجانب لیکن ہم کیا ان کی ریس کر سکتے ہیں کہ ہماری بیبیاں لونڈیوں سے بڑھ کر بے اختیار۔ دائم الحسبس ناک تا چوٹی گرفتار اور پھر تعداد نکاح سے جو بے لطفیاں اور بدمزگیاں خانہ داری میں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں تو بزرگانِ دین کو بھی اس سے نجات نہ تھی۔

کوئی دوسرا کس گنتی میں ہے۔

مبتلا: اب بھی مجھ کو کون سا لطف حاصل ہے۔

عارف: تم آگ کے جلے ہوئے کو سینکتے ہو۔ یعنی ایک بے لطفی کو دوسری بے لطفی سے دبانا چاہتے ہو۔ مگر ممکن ہے کہ یہ دوسری بے لطفی آخر میں اس پہلی بے لطفی سے زیادہ شاق ہو۔

مبتلا: اس وقت جیسا موقع ہو گا دیکھا جائے گا۔ میں ابھی سے فکر مستقبل کر کے اپنی زندگی کو کیوں تلخ کر لوں۔

عارف: تو اب حقیقت میں میری تمہاری ملاقات لاحاصل ہے۔ مگر میں اتنا کہے دیتا ہوں کہ تم اپنے حق میں اچھا نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ تم نے مجھ کو جناب میرمتقی صاحب سے شرمندہ کیا۔ یہ کہہ کر عارف بہ کمال نا رضا مندی اٹھ کر چلا گیا۔