فسانہء مبتلا/36
بیسواں باب: مبتلا کا دوسرا نکاح
مبتلا کے سر پر ان دنوں ایسا جن سوار تھا کہ اس کی عقل ہی ٹھکانے نہ تھی عارف سے پیچھا چھڑا وہ پھر بیگم کے گھٹنے سے جا لگا۔ وہ تو پہلے ہی سے اس کے لیے جال پھیلائے بیٹھی تھی۔ جانا تھا کہ اس پر چھا گئی۔ بیگم بالطبع زیادہ تر اس بات کی طرف راغب تھی کہ مبتلا آشنائی کے طور پر اس کو گھر میں ڈال لے۔
مگر میرمتقی اور عارف کی تعلیم کا مبتلا پر اتنا تو اثر ہوا کہ اس نے بے نکاح بیگم کے ساتھ تعلق رکھنے کو پسند نہ کیا۔ پاس تھی مسجد دو طالب علموں کو بلا بھیجا۔ نکاح پڑھا جانے لگا۔ مہر میں ہوا اختلاف۔ مبتلا نے چاہا مہر شرع محمد، بیگم نے کہا جو غیرت بیگم کا مہر وہ میرا مہر۔ جیسی نکاحی بی بی وہ ویسی نکاحی بی بی میں۔
دیر تک اس میں تکرار ہوتی رہی۔
آخر مولوی صاحب جو نکاح پڑھاتے تھے بولے کہ جانے دو مہر مثل رکھو۔ مبتلا تو نیم راضی ہو چلا تھا۔ مگر بیگم مہر مثل کے نام سے شرماتی تھی کیونکہ سارے خاندان میں کبھی کسی کا نکاح ہوا ہوتو مہر مثل ہو۔ دادی اور پھوپھیاں ساری عمر خرچیاں کماتی رہیں۔ مہر مثل آئے تو کہاں سے آئے۔ ناچار مہر شرع محمدی ماننا پڑا اور بات یہ بنائی کہ وہ بھی کیا بی بی ہے جو میاں پر مہر کا دباؤ ڈال کر گھر کرے۔
ہم تو بڑا مہر مرد کے دل کو سمجھتے ہیں۔ دل مٹھی میں آیا تو جانو سب کچھ پایا۔ وہ کیا غضب کے دوانچھر تھے کہ ادھر پڑھے گئے اور ادھر فکروں نے آگھیرا۔ بیگم نے نکاح کے بعد پہلی جو بات کی وہ یہ تھی کہ یہ مکان جس میں رہتی ہوں تم کو معلوم ہے کرائے کا ہے اور جتنا سازوسامان جو تم یہاں دیکھتے ہو۔ یہاں تک کہ میرے ہاتھ کا گہنا اور گلے کے کپڑے کوئی چیز میری نہیں۔
میری سگی خالہ میرے ساتھ ہیں۔ یہ سب ان کا مال ہے۔ ان کی ہرگز مرضی نہ تھی کہ میں نکاح کروں۔ اب جو میں نے ان کو ناراض کر کے کیا ہے تو اِدھر کی دنیا اُدھر ہو جائے۔ خالہ بندی میرے پاس ٹھہرنے والی نہیں اور مجھ کو اس وقت کہیں لے چلتے ہو تو میں تیار ہوں۔ اپنی آبرو کا پاس کر کے گہنا کپڑا تو بہتیرا پہناؤ گے اور میں پہنوں گی مگر لے چلنا ہے تو مجھ کو اپنے یہاں کے کپڑے پہنا کر لے چلو اور دو چار دن کے لیے یہاں ٹھہرانے کی صلاح ہے تو جا کر خالہ سے اجازت لے لو۔
میں ان کے سامنے نہیں جا سکتی۔
مبتلا نکاح کے لیے تو بڑا مستعجل تھا مگر احمق نے پہلے سے اتنا بھی نہ سوچا کہ کہاں دوسری بی بی کو لے جا کر رکھوں گا اور کیونکر اس نئے گھر کا انتظام ہو گا۔ اب جو دفعتاً اس کو معلوم ہوا کہ بیگم بے سروسامان محض بیک بینی و دو گوش اس کے سر پڑی تو بہت سٹ پٹایا اور جتنا اختلاط وہ معمولی ملاقاتوں میں کر لیا کرتا تھا، طبیعت کو اس کے لیے بھی حاضر نہ پایا۔
یہ حقیقت تھی اس خواہش کی جس کے پیچھے مبتلا اس قدر دیوانہ بن رہا تھا کہ دنیا اور دین اس کو کچھ نہیں سوجھتا تھا، اب ایک ذرا سا تردد پیش آگیا تو کہیں اس خواہش کا پتہ نہ تھا۔ میرمتقی اور عارف اس کو یہی سمجھاتے تھے کہ کس فکر خسیس میں پڑے ہو، فکر کرنے کی باتیں دوسری ہیں، عمدہ اونچی اور ضروری۔ اگر ان میں دل لگاؤ تو اس فکر بے ہودہ سے نجات پاؤ۔
بیگم پر اپنی درماندگی ظاہر کرتے ہوئے تو اس کو شرم آئی۔ آخر وہ یہ کہہ کر اٹھ آیا کہ ابھی تھوڑی دیر میں بندوبست کر کے تم کو لے چلتا ہوں تیار ہو۔ ایک بات یہ بھی اکثر دیکھنے میں آئی کہ آوارہ اور عیاش مزاج لوگ دھوکا دینے میں بڑے چالاک ہوتے ہیں اور اس کا سبب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ خود ہمیشہ تختہ مشق مغالطات رہتے ہیں۔ مبتلا کو بھی عین وقت پر غضب کی سوجھتی تھی جس وقت تک وہ بیگم کے پاس بیٹھا رہا۔
کوئی بات اس کے ذہن میں نہ تھی۔ اٹھ کر باہر آنا تھا کہ اس نے اپنے دل میں کہا کہ بیگم کو اپنے ہی مکان میں بلکہ زنان خانے میں بلکہ غیرت بیگم کے ساتھ رکھنا ٹھیک معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ بات چھپنے والی تو ہے نہیں۔ آخر کبھی نہ کبھی کھلے گی ضرور۔ پس جو کچھ ہونا ہے وہ پرسوں کا ہوتا کل اور کل کا آج ہو چکے۔ یہ دل میں ٹھان وہ گھر کی طرف چلا آرہا تھا کہ راہ میں اس کو اپنے گھر کی دو عورتیں ملیں۔
مامَا کے ساتھ انّا اور انّا کی گود میں مبتلا کی دودھ پیتی ہوئی دس گیارہ مہینے کی تھی بچی۔ چور کی داڑھی میں تنکا، مبتلا تو سمجھا کہ غیرت بیگم کو نکاح کی خبر ہو گئی اور سننے کے ساتھ ہی شاید ناظر کے گھر چلی گئیں اور یہ عورتیں پیچھے سے جا رہی ہیں۔ گھبرا کر پوچھا۔ ماما بولی ننھی بچی کا جی دس بارہ دن سے ایسا ماندھا ہو رہا ہے کہ بخار کسی وقت نہیں اترتا۔
کل شام سے مطلق آنکھ نہیں کھولی۔ اب کے ایسی بھاری نظر ہوئی ہے کہ دوپہر سے دودھ بھی منہ میں نہیں لیتیں۔
متوکل شاہ صاحب کے پاس دم کرانے کے لیے جاتے ہیں۔ مبتلا سے اور ایک ڈاکٹر سے بہت ملاقات تھی۔ مبتلا لڑکی کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ اس نے دیکھ کر کہا کہ بخار بڑے زور کا ہے مگر کچھ گھبرانے کی جگہ نہیں۔ کچلیاں پھول رہی ہیں۔ میں مسوڑھا کھولے دیتا ہوں اور شیشی ایک بھیج دینا، عرق دوں گا۔
گھنٹے گھنٹے بعد ایک ایک چمچہ پلانا پسینا آکر تپ اتر جائے گا اور دودھ تو خدا نے چاہا لڑکی ابھی پینے لگے گی۔ مسوڑھے کی تکلیف کے مارے منہ نہیں چلا سکتی۔ یہ کہہ کر نشتر نکال مسوڑھا کھول دیا۔ اَنّا نے پیٹھ موڑ کر دودھ لگایا تو غٹ غٹ پینے کی آواز آنے لگی۔ سب لوگ خوشی خوشی گھر واپس آئے۔ جب مردانے میں پہنچا تو مبتلا نے لڑکی کو آپ لے لیا۔ یہ تو خیر لڑکی تھی۔
اس سے بڑا لڑکا معصوم ساڑھے تین برس کا ہوا، اس بلا کی باتیں جیسے بنگالے کی مینا اور ایسی پیاری صورت کہ کوئی راہ چلتا اس کو دیکھتا تو گود میں اٹھا لیتا۔ مبتلا نے کبھی بھول کر بھی آنکھ اٹھا کر اس کی طرف کو نہ دیکھا بلکہ وہ بچہ جب اس کو دیکھتا ابا ابا کہہ کر دوڑتا اور یہ ظالم دور سے اس کو جھڑک دیتا۔ خلافِ عادت بیٹی گود میں لیے ہوئے جو گھر میں گھسا غیرت بیگم تو دیکھتے ہی ریجھ گئی اور بیٹی کو لینے کے لیے دوڑی اور لگی پوچھنے کہ میں نے تو اس کو دم کروانے کے لیے بھیجا تھا۔
کیا تم اس کو الٹا پھروا لائے؟
مبتلا: تم کو خبر بھی ہے اس کی کچلیاں نکل رہی ہیں اور کچلیوں کا تو معمول ہے کہ بچے کو کچلا کر کے بڑی مشکل سے نکلتی ہیں۔ میں اس کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ اس نے نشتر سے اس کا مسوڑھا کھول دیا ہے اور بخار کے لیے عرق دینے کو کہا ہے۔ شیشی بھیج دو۔ ماما جا کر عرق لے آئے۔ خدا نے چاہا آج ہی رات کو بخار بھی اتر جائے گا اور کچلی کو تو سمجھو نکل آئی۔
غیرت بیگم: اے ہے کیا مسوڑھے کو چیرا لگایا ہے۔
مبتلا: کچھ خوف کی بات نہیں۔ انا سے پوچھو کہ لڑکی کو خبر تک نہیں ہوئی۔ اسی وقت تو اس نے خاصی طرح دودھ پیا۔ ڈاکٹر کہتا تھا کہ جب دانت نکلنے کو ہوتا ہے تو مسوڑھا پہلے سے مردار پڑ جاتا ہے۔ اس وجہ سے تکلیف نہیں ہوتی۔ کچھ خدا کو بہتری کرنی تھی کہ عین وقت پر تدبیر ہو گئی۔ ورنہ آج رات بھر میں معلوم نہیں کیا ہو جاتا۔
غیرت بیگم نے لڑکی کا منہ کھول کر دیکھا تو اتنی ہی دیر میں بخار بھی کسی قدر ہلکا ہو گیا تھا اور صورت بھی ہوشیار تھی۔ پکارا کہ بتول بتول! تو ماں کی آواز پہچان کر آنکھیں کھول دیں اور دیکھ کر مسکرائی بھی۔ ماں نے پیار کر کے انّا کی گود میں دیا تو پھر دودھ پیا۔ یہ دیکھ کر غیرت بیگم بولی کہ ننھے بچوں کی یہی تو بڑی مصیبت ہے کہ آپ تو منہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے اوپر والوں کو کیونکر معلوم ہو کہ ان کو کس بات کی ایذا ہے۔
آنکھوں کا نہ کھولنا اور ڈر ڈر کر اچھل پڑنا اور ہتھیلیوں میں بساندی بساندی بو کا آنا ان باتوں کو دیکھ یہاں تو سب یہی کہتے تھے کہ نظر ہو گئی ہے۔ مبتلا: ڈاکٹر نے دیکھنے سے پہلے زبانی حال سن کر کہہ دیا تھا کہ کوئی دانت نکل رہا ہو گا۔ پھر جو منہ کھول کر دیکھا تو حقیقت میں دور سے کچلی صاف جھلک رہی تھی۔