مجھے عیش و عشرت کی قدرت نہیں ہے
Appearance
مجھے عیش و عشرت کی قدرت نہیں ہے
کروں ترک دنیا تو ہمت نہیں ہے
کبھی غم سے مجھ کو فراغت نہیں ہے
کبھی آہ و نالہ سے فرصت نہیں ہے
صفوں کی صفیں عاشقوں کی الٹ دیں
قیامت ہے یہ کوئی قامت نہیں ہے
برستا ہے مینہ میں ترستا ہوں مے کو
غضب ہے یہ باران رحمت نہیں ہے
مرے سر پہ ظالم نہ لایا ہو جس کو
کوئی ایسی دنیا میں آفت نہیں ہے
ہے ملنا مرا فخر عالم کو لیکن
ترے پاس کچھ میری حرمت نہیں ہے
میں گور غریباں پہ جا کر جو دیکھا
بجز نقش پا لوح تربت نہیں ہے
بری ہی طرح مجھ سے روٹھی ہیں مژگاں
انہیں کچھ بھی چشم مروت نہیں ہے
تو کرتا ہے ابلیس کے کام زاہد
ترے فعل پر کیونکے لعنت نہیں ہے
میں دل کھول تاباںؔ کہاں جا کے روؤں
کہ دونوں جہاں میں فراغت نہیں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |