Jump to content

مدعیان تہذیب کی بد اعمالیاں

From Wikisource
مدعیان تہذیب کی بد اعمالیاں
by الطاف حسین حالی
319418مدعیان تہذیب کی بد اعمالیاںالطاف حسین حالی

(یہ مضمون مولانا کی مشہور نظم ’’زمزمہ قیصری‘‘ کے ایک طویل فٹ نوٹ کی نقل ہے۔ یہ نظم مولانا نے ۱۸۷۸ء میں لکھی تھی اور ایک انگریزی نظم کاترجمہ ہے۔)انگریزی مؤرخوں اور شاعروں کوجب یہ منظور ہوتا ہے کہ لوگوں کو اپنی رحم دلی اور انسانی ہمدردی پر فریفتہ اور مسلمانوں پر غضبناک اور برافروختہ کریں تو وہ محمود غزنوی اور تیمور وغیرہ کی سختی اورتشدد کو خوب چھڑک چھڑک کر جلوہ گر کرتے ہیں۔ مسٹر ایسٹوک ایک انگریز مصنف نے دربار قیصری منعقدہ ۱۸۷۸ء کے موقع پر ایک انگریزی نظم لکھی تھی جس کے تین حصے تھے۔ پہلے حصے میں ہندوستان اور مسلمان بادشاہوں اور انگریزی سلطنت کی ابتدا اور ترقی کا ذکر ہے۔ دوسرے اورتیسرے حصے میں ان ہندوستانی رؤسا اور والیان ریاست کا تذکرہ ہے جو دربار قیصری میں شریک ہوئے تھے۔ پہلے حصے میں مصنف نے بعض مسلمان بادشاہوں پر نکتہ چینی کی ہے جس کے ایک بند کا ترجمہ مثالاً پیش کیا جاتا ہے،پھر ہوا اسلام کے اقبال کا تارا بلندجانب ہندوستاں محمود نے ہانکا سمندوہ مسلمانوں کے حق میں ابرر حمت تھا مگرہندوؤں کے دل رہے اس کے ستم سے دردمندوہ پہنچتا تھا جہاں ہوتی تھی واں آفت بپااور چلتا تھا جلو میں اس کے آسیب و گزندغش پہ غش آتے تھے ہر ذی روح کو پیہم وہاںسانس لیتا تھا جہاں وہ اژدہائے زور مندروندتا تھا جس کو وہ کھیتی نہ ہوتی تھی ہریصلح سے بجھتا نہ تھا، ہوتا تھا جو شعلہ بلندخوف تھا دل میں خدا کا اور نہ کچھ بندوں پر رحمقتل اور تاراج تھا اک بازی سلطان پسندجب وہ آیا تھا تو سرتا پا گلستاں تھا یہ ملکجب گیا یہاں سے تو مثل دشت ویراں تھا یہ ملکاسی طرح ایک اور انگریز نے محمود کے متعلق کچھ اشعارنظم کئے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے،اے ملک زرنگار 1 قدم ہے یہ وہ کون ساحملے سے جس کے ہے ترے ارکاں میں زلزلہوہ تیرے قصر اور ستوں دار سائباںمعبد وہ جو پہاڑوں کے غاروں میں ہیں نہاںٹھاکر اور ان کے مندر راجا اور ان کے تختحملے سے اس کے آکے پڑا سب پہ وقت سختپتلا غضب کا کون سا وہ ہولناک ہےاے ملک زرنگار وہ غزنیں کی خاک ہےآتا ہے لوٹتا ہوا اس بزم گاہ میںپھرتے ہیں بکھرے تاج بہت اس کی راہ میںکتے جو اس کے ساتھ شکاری ہیں بے شماران کے گلوں میں ہیں وہ جواہر نگار باربے رحم فوج لائی ہے جو لوٹ مار کرمقتول رانیوں کے گلے سے اتار کرکرتا ہے قتل لڑکیوں کو وہ گھروں کے بیچاور بے گنہ پجاریوں کو مندروں کے بیچاگرچہ ان دونوں شاعروں نے محمود کے تشددکوبہت مبالغہ کے ساتھ بیان کیا ہے مگرحق یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے ان کے بعض بادشاہوں کی ظالمانہ کاروائیاں گووہ کیسی ہی تاریکی اور وحشت کے زمانے میں کی گئی ہوں ہمیشہ باعث شرم و ندامت رہیں گی۔ لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ آیا دنیا میں کوئی ایسی قوم ہے جو اس دھبے سے پاک ہو؟ یورپ کی تاریخ سے ظاہر ہے کہ وہاں کی شائستہ قومیں جو آج اپنے سوا تمام دنیا کی قوموں کو وحشی یا نیم وحشی کا خطاب دیتی ہیں، محمود کے زمانے میں بلکہ اس کے بعدکئی صدیوں تک ایشیا سے بمراتب زیادہ وحشت و خونریزی و بے رحمی میں مبتلا تھیں۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو بنی نوع انسان کی دو خصلتیں نہ کبھی بدلی ہیں نہ آئندہ بدلنے کی امید ہے۔ (۱) طمع اور خودغرضی (۲) زبردستوں کا زیردستوں کو دلنا اور پیسنا۔ جس طرح مگرمچھ، مچھلیوں اور مینڈکوں کو، یا شیر اور چیتاہرن اور نیل گائے کو نوش جان کر تاہے اسی طرح جو انسان قوی اور زبردست ہیں وہ ضعیف اور کمزور انسانوں کے شکار کرنے سے کبھی در گزر نہیں کرتے۔سولہویں صدی کو (جس میں اہل یورپ امریکہ میں جا کر آباد ہوئے) کچھ بہت زمانہ نہیں گزرا۔ اس صدی میں یورپ کی بعض قوموں کے ہاتھ سے امریکہ کے اصلی باشندوں پر کون ساظلم اور کون سی بے رحمی ہے جو روا نہیں رکھی گئی۔ میکسیکو اور پیرو جوکہ امریکہ کے دوشائستہ ملک تھے، وہاں کے مفتوحین پر جو وحشیانہ ظلم ہسپانیہ والوں نے کئے ان کی نظیر دنیا کی تاریخ میں مشکل سے ملےگی۔ کورٹیز جو کہ ہسپانیہ کا رہنے والا اور میکسیکو کا فاتح تھا، اس نے اور اس کے بعد نئے آنے والے جرنیلوں نے یہ ٹھان لی تھی کہ میکسیکو کو قاطبۃ ً ویران کر دیجئے اور وہاں ہسپانیہ کی ایک کولونی (آبادی) آباد کیجئے۔ چنانچہ جہاں تک ان سے ہوسکا وہاں کے قدیم باشندوں کے نیست و نابود کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ کورٹیز نے میکسیکو کے شہنشاہ مونٹی زوما کو گرفتار کرکے الٹا لٹکا دیا اور اس کی رعایا کو اس کی آنکھ کے سامنے جلایا اور قتل کرایا۔بڑے بڑے الاؤ لگے ہوئے تھے جن میں ہزارہا بنی آدم عام طور پر بے تکلف جلائے جاتے تھے۔ معصوم بچوں کے روبرو ان کی مائیں اور باپ بہ ہزار عقوبت و سختی آگ میں جھونک دیے جاتے تھے۔ دیہات اور جنگلوں میں ہزاروں آدمی شکاری کتوں سے پھڑوا دیئے جاتے تھے۔ یہ ہسپانیہ کے وہی مقدس اور بے عیب عیسائی تھے جنہوں نے کافروں (یعنی مسلمانوں) کو غرناطہ سے ایک ناپاک اور گنہگار قوم ہونے کا الزام لگا کر نکالا تھا اور جن کا قول تھا کہ ’’ظالم اوربددین مسلما ن اس لائق نہیں ہیں کہ فرشتہ صفت عیسائیوں کے ہمسائے اور ہم وطن ہوکر رہیں۔‘‘ اندازہ کیا گیا ہے کہ تقریباً ایک ملین (دس لاکھ) بنی آدم ان مقدس عیسائیوں کے ہاتھ سے طرح طرح کی عقوبت اور سختی کے ساتھ مارے اور جلائے گئے۔یہی حال کچھ دنوں بعد پیرو کا ہوا۔ یہ ملک جنوبی امریکہ میں بحرالکاہل کے کنارے پر واقع ہے۔ فرنسیسلوپزیرو کہ غالباً اٹلی کا رہنے والا ایک مجہول النسب آدمی تھا، اس کو جنوبی امریکہ میں فتوحات کرنے اور وہاں سے سونا چاندی، رولنے کامدت سے خیال تھا۔ اس نے پناما یا اس کے قریب کسی مقام میں ایک جماعت کواس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ایک بیڑا جہازوں کا اور کچھ سپاہ اس کے ماتحت ملک پیرو کو جس کے تمول کی بہت شہرت تھی، روانہ کریں۔ چنانچہ اس سامان کے ساتھ وہ وہاں پہنچا اور ایک دو پھیرے کے بعد اس ملک پر قابض ہو گیا۔ پھر تو کوئی ظلم اور تعدی ایسی نہ تھی جو پیرو کے اصلی باشندوں پرجائز نہ رکھی گئی ہو۔ ان سے سونا اور چاندی چھین چھین کر اپنے ملک کو بھیجتا تھا۔ ہزاروں بندگان خدا اس کے ظلم وستم کے باعث ملک چھوڑ چھوڑ کر پہاڑوں پر چڑھ گئے تھے۔ جہاں وہ آخرکار فاقے کر کرکے مرجاتے تھے اور ہزاروں قتل کرائے جاتے تھے۔ تمام مؤرخوں کا اتفاق ہے کہ ایسی بے رحمی کبھی دنیا میں نہیں ہوئی۔انگریزوں کا بیان ہے کہ آسٹریلیا کے قدیم باشندوں پربہت سختی نہیں کی گئی۔ اگر یہ بیان صحیح ہے تو وہاں سختی کی کچھ ضرورت بھی نہ تھی۔ وہ بے چارے اس درجہ ناہموار، بیڈول اورناشائستہ تھے کہ انگریز فاتحوں کی صورتیں، ٹیپ ٹاپ اور چمک دمک دیکھ کر شرم کے مارے زمین میں گڑے جاتے تھے اور کسی طرح ممکن نہ تھا کہ ان کے پڑوس میں رہ سکیں۔ جس قدر انگریز مہاجروں کی تعداد آسٹریلیا میں بڑھتی گئی، وہ لوگ ملک کے اندرونی حصے میں غائب ہوتے گئے اور رفتہ رفتہ وہیں معدوم ہو گئے۔ اب شاذ و نادر کہیں کہیں اندرونی پہاڑوں کے سلسلے میں پائے جاتے ہیں۔ ٹسمانیہ کے قدیم باشندے جو ایک خوش بشرہ مگران سویلائزڈقوم (ناتربیت یافتہ) تھی، یورپ والوں کی ہمسائیگی کے باعث بالکل فنا ہو گئی۔ یہاں تک کہ اب ایک متنفس بھی ان کی نسل کا باقی نہیں۔ پس آسٹریلیا کے قدیم باشندے جو انڈیمن والوں سے بھی زیادہ بدقوارہ اور ناشائستہ تھے، انگریز جیسی اعلیٰ درجہ کی شائستہ قوم کے پڑوس میں کیوں کر ٹھہر سکتے تھے،تو بہ جلوہ چوں در آئی، اجل از سرترحمہمہ جا کند منادی پے احتراز کردناگرفی الواقع انگریزوں نے آسٹریلیا والوں پرسختی نہیں کی تو یہ ان کی عین دانائی تھی کہ انہوں نے مفت کی بدنامی نہیں لی اور تمام براعظم ان کے لئے خود بخود خس و خاشاک سے پاک ہو گیا۔بات یہ ہے کہ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے نے علم وہنر میں اس قدر ترقی کی ہے اوروہ دوسرے حصہ کے ابنائے جنس سے اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ اگلے زمانے کے فاتح اور کشور کشاجن ناجائز ذریعوں سے مفتوحین کی دولت و ثروت اور سطلنت کے مالک ہوتے تھے ان ذریعوں کے کام میں لانے کی اب مطلق ضرورت نہیں رہی۔ جس قدر مال ودولت پہلے قتل وغارت اور لوٹ کھسوٹ سے حاصل کیا جاتا تھا اس سے اضعاف مضاعفہ اب صنعت و تجارت کے ذریعہ سے خود بخود کھچا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب دو ایسی گورنمنٹوں کے درمیان جن میں سے ایک شائستہ اور دوسری ناشائستہ ہو، تجارتی عہدنامہ تحریر ہو جاتا ہے تو یقیناً یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ شائستہ گورنمنٹ بغیر اس کے کہ ہلدی لگے نہ پھٹکری، دوسری گورنمنٹ کے تمام ملک ودولت ومنافع و محاصل کی بالکل مالک ہو گئی، کسی شاعر نے خوب کہا ہے،نہیں خالی ضرر سے وحشیوں کی لوٹ بھی لیکنحذر! اس لوٹ سے جو لوٹ ہے علمی و اخلاقینہ گل چھوڑے برگ وبار چھوڑے تونے گلشن میںیہ گل چینی ہے یالٹس ہے گلچیں! یا ہے قزاقیشاید ان شعروں میں کچھ مبالغہ ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ جو نتیجہ اگلے زمانے کے غارتگروں کی لوٹ کھسوٹ سے مترتب ہوتا تھا اسی نتیجے کے قریب قریب یہ شائستہ لوٹ بھی پہنچادیتی ہے۔ کروڑوں اہل صنعت و حرفت جن کی دستکاری مکینکس (کلوں، مشینوں) کا کسی طرح مقابلہ نہیں کر سکتی، نان شبینہ کو محتاج ہو جاتے ہیں۔ فلاحت پیشہ لوگوں پر یہ بپتا پڑتی ہے کہ زمین کی پیداوار جس قدر کثرت کے ساتھ غیر ملکوں کو جاتی ہے اسی قدر ملک میں زیادہ کاشت کا تردد کیا جاتا ہے اور اس سبب سے روز بروز زیادہ لاگت لگانی پڑتی ہے اور محنت کا کافی معاوضہ نہیں ملتا۔پولیٹکل اکانومی (علم سیاست مدن) کا یہ مسلم مسئلہ ہے کہ قدرتی پیداوار کی جس قدر زیادہ مانگ ہوتی جاتی ہے، اسی قدر اس کے بہم پہنچانے میں زیادہ لاگت اور زیادہ محنت صرف ہوتی ہے اور مصنوعی چیزوں کی جس قدر زیادہ طلب ہوتی ہے اسی قدران پر کم لاگت آتی ہے اور کم محنت صرف ہوتی ہے۔

ملکی تاجروں کے لئے جو کہ شائستہ ملکوں کی مصنوعی چیزوں کی تجارت کرتے ہیں اول تو اوپر والے منافع کی کچھ گنجائش ہی نہیں چھوڑتے اوراگر قدر قلیل (جیسے آٹے میں نمک) کچھ فائدہ ہوت ابھی ہے تو اپنے ملک کی نہایت ضروری اور ناگزیر اشیا کا نرخ گراں ہونے کے سبب ان کی کمائی میں سے بہت کم پس انداز ہوتا ہے اور جس قدر ہوتا ہے وہ غیر ملکوں کی آرائشی اورغیر ضروری چیزوں کے خریدنے میں جو باوجود کمال نفاست اور لطافت کے نہایت ارزاں دستیاب ہوتی ہیں صرف ہو جاتا ہے۔ پس ان کو بھی فارغ البالی اور آسودگی کبھی نصیب نہیں ہوتی۔ اگر سو دوسو میں دوچار ایسے نکل بھی آتے ہیں جو اپنے ملک میں مرفہ الحال سمجھے جاتے ہیں، ان کا معاملہ اورلین دین ان کروڑپتیوں سے ہوتا ہے جن کے مقابلے میں وہ اپنے تئیں محض مفلس اور قلانچ تصور کرتے ہیں اور جن کی مانگ کے خوف سے ہمیشہ دوالہ نکل جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ طمع، خود غرضی اور زبردستوں کا زیر دستوں کو دلنا اور پیسنا تاریکی اور وحشت کے زمانے میں تھا۔ اسی کے قریب قریب اب بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دولت گھسیٹنے کے لئے پہلے جبر و تعدی کی ضرورت تھی اب اس کی کچھ ضرورت نہیں رہی، ان سویلائزڈ (وحشی) دنیا کی دولت سویلائزڈ (مہذب) دنیا کی طرف خود بخود کھچی چلی جاتی ہے۔ ایک اژدہ اشیر کو بہت برا بھلا کہہ رہا تھا کہ تو کیسا بے رحم ہے کہ ہمیشہ جانداروں کا خون پینے کی فکر میں رہتا ہے اور شکار کی دھن میں دور دور کے دھاوے کرت اہے۔ تمام جنگلوں میں تیری دھاک ہے، آج اس ہرن کو پھاڑ ڈالا، کل اس پاڑھے کے ٹکڑے اڑائے۔ ایسی خونخواری پر کمر باندھنی اچھی نہیں ہے۔ شیر نے کہا قبلہ! اگرمیرے سانس میں بھی ایسی کشش ہوتی ہے کہ دور دور سے جانور خود گھسٹتے ہوئے منہ میں چلے آٓتے اور میری حرص وآزکی آگ کو بجھا دیتے تو میں بھی ہرگز بے گناہ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین نہ کرتا۔مع ذالک اگر کہیں آزادی تجارت میں کوئی مزاحمت پیش آتی ہے اور بغیر جبر و تعدی سے کام نہیں چلتا تو اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی شائستہ قوم بھی سب کچھ کرنے کو موجود ہو جاتی ہے اورکہا جاتا ہے کہ آزادی تجارت کی مزاحمت رفع کرنی عین انصاف ہے حالانکہ آج تک پولیٹکل اکانومی نے اس بات کاتصفیہ نہیں کیا کہ فری ٹریڈ (FREE TRADE) کا قاعدہ مطلقاً قرین انصاف ہے یا خاص خاص صورتوں میں خلاف انصاف بھی ہو سکتا ہے۔ انگلینڈ کافائدہ فری ٹریڈ میں ہے اس لئے وہ اسی کو عین انصاف سمجھتا ہے، فرانس اور یونائٹیڈ اسٹیٹس (اضلاع متحدہ امریکہ) اس کو اپنے حق میں بالفعل مضر سمجھتے ہیں اس لے وہ اس کو جائزنہیں رکھتے۔لیکن انصاف شرط ہے جن حکمتوں اور تدبیروں سے آج کل دنیا کی دولت گھسیٹتی جاتی ہے، ان پربرخلاف اگلے زمانے کی جابرانہ لوٹ کھسوٹ کے کچھ اعتراض نہیں ہو سکتا۔ مشہور ہے کہ حکیم علوی خاں 2 جوکہ محمدشاہ کا معالج اور نہایت حاذق طبیب تھا، اس کے زمانے میں ایک عطار بھی اس کے نسخے دیکھتے دیکھتے علاج کرنے لگا تھا۔ لوگوں نے اس کا ذکرعلوی خاں کے سامنے بھی کیا اور کہا کہ ’’جس قدر مریض آپ کے علاج سے اچھے ہوتے یا مرتے ہیں اسی کے قریب اس کے علاج سے اچھے بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں۔‘‘ علوی خاں نے کہا، ’’بلے ! لاکن من بقاعدہ می کشم و آں قرم ساق بے قاعدہ می کشد۔‘‘ حاشیے(۱) یعنی ہندوستاں(۲) ٹسمانیہ۔ براعظم آسٹریلیا کے ایک صوبے کا نام ہے۔(۳) حکم علوی خاں دراصل خطاب ہے۔ اصلی نام محمد ہاشم تھا۔ ۱۰۸۰ھ ۱۶۶۹ء میں بمقام شیراز پیدا ہوئے۔ بڑے ہونے پر ۱۱۱۱ھ میں ہندوستان آئے اور شہزادہ محمد اعظم (ابن حضرت عالمگیرؒ) کے ہاں ملازم ہوئے۔ محمدشاہ کے دربار میں منصب شش ہزاری پر فائز اور خطاب ’’معتمدالملک‘‘ سے سرفراز ہوئے اور بادشاہ نے ان کو چاندی میں تلوا کر سب چاندی ان کو مرحمت فرمائی۔ سلطنت کی ابتری کی بدولت جب محمد شاہ کے زمانے میں نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا توواپسی پر ان کو بھی اپنے ہمراہ لے گیا۔ وہاں سے حج کرتے ہوئے ۱۷۴۳ میں واپس دہلی چلے آئے اور ۱۷۴۷میں انتقال فرمایا۔ نامی طبیب اور حاذق معالج تھے۔ جامع الجوامع طب میں ان کی ایک مشہور کتاب ہے۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.