مٹی کا دیا
جھٹپٹے کے وقت گھر سے ایک مٹی کا دیا
ایک بڑھیا نے سر رہ لا کے روشن کر دیا
تاکہ رہگیر اور پردیسی کہیں ٹھوکر نہ کھائیں
راہ سے آساں گزر جائے ہر ایک چھوٹا بڑا
یہ دیا بہتر ہے ان جھاڑوں سے اور اس لیمپ سے
روشنی محلوں کے اندر ہی رہی جن کی سدا
گر نکل کر اک ذرا محلوں سے باہر دیکھیے
ہے اندھیرا گھپ در و دیوار پر چھایا ہوا
سرخ رو آفاق میں وہ رہنما مینار ہیں
روشنی سے جن کی ملاحوں کے بیڑے پار ہیں
ہم نے ان عالی بناؤں سے کیا اکثر سوال
آشکارا جن سے ان کے بانیوں کا ہے جلال
شان و شوکت کی تمہاری دھوم ہے آفاق میں
دور سے آ آ کے تم کو دیکھتے ہیں با کمال
قوم کو اس شان و شوکت سے تمہاری کیا ملا
دو جواب اس کا اگر رکھتی ہو یارائے مقال
سرنگوں ہو کر وہ سب بولیں زبان حال سے
ہو سکا ہم سے نہ کچھ الانفعال الانفعال
بانیوں نے تھا بنایا اس لیے گویا ہمیں
ہم کو جب دیکھیں خلف اسلاف کو رویا کریں
شوق سے اس نے بنایا مقبرہ اک شاندار
اور چھوڑا اس نے اک ایوان عالی یادگار
ایک نے دنیا کے پودے باغ میں اپنے لگائے
ایک نے چھوڑے دفینے سیم و زر کے بے شمار
اک محب قوم نے اپنے مبارک ہاتھ سے
قوم کی تعلیم کی بنیاد ڈالی استوار
ہوگی عالم میں کہو سرسبز یہ پچھلی مراد
یا وہ اگلوں کی امیدیں لائیں گی کچھ برگ و بار
چشمۂ سر جیوں ہے جو بہتا رہے گا یاں وہی
سب اتر جائیں گی چڑھ چڑھ ندیاں برسات کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |