نہیں کوئی دوست اپنا یار اپنا مہرباں اپنا
Appearance
نہ کوئی دوست اپنا یار اپنا مہرباں اپنا
سناؤں کس کو غم اپنا الم اپنا فغاں اپنا
نہ طاقت ہے اشارے کی نہ کہنے کی نہ سننے کی
کہوں کیا میں سنوں کیا میں بتاؤں کیا بیاں اپنا
نپٹ رکھتا ہے جی میرا خفا ہوں ناک میں دم ہے
نہ گھر بھاتا ہے نے صحرا کہاں کیجے مکاں اپنا
ہوا ہوں گم میں لشکر میں پری رویاں کے ہے ظالم
کہاں ڈھونڈوں کسے پوچھوں نہیں پاتا نشاں اپنا
بہت چاہا کہ آوے یار یا اس دل کو صبر آوے
نہ یار آیا نہ صبر آیا دیا میں جی نداں اپنا
قفس میں بند ہیں یہ عندلیبیں سخت بے بس ہیں
نہ گلشن دیکھ سکتی ہیں نہ اب وے آشیاں اپنا
مجھے آتا ہے رونا ایسی تنہائی پہ اے تاباںؔ
نہ یار اپنا نہ دل اپنا نہ تن اپنا نہ جاں اپنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |